ہم اكثر سنتے ہيں كہ فلاں نے چھوٹے سے سبب كى بنا پر بيوى كو طلاق دے دى يا پھر بيوى كو زدكوب كيا، مثلا بيوى نے كھانا نہيں پكايا، يا كھانا ليٹ ہو گيا يا كھانا جل گيا، جب خاوند كو پوچھيں كہ ايسا كيوں كيا تو جواب ديتا ہے بيوى نے شرعى واجب ميں سستى سے كام ليا ہے.
ليكن كيا آپ ميں سے كسى نے يہ سوچا كہ آيا بيوى پر خاوند كى خدمت كرنے كا شرعى حكم كيا ہے ؟
آيا بيوى پر شرعا خاوند كى خدمت اور كھانا پكانا يا لباس دھونا واجب ہے يا نہيں ؟
كيونكہ جمہور علماء كرام كے قول كے مطابق بيوى پر خاوند كى ان امور ميں خدمت كرنا واجب نہيں، ليكن اسے بغير كسى جبر كے اختيار ہے وہ اپنى مرضى سے كر سكتى ہے ميرا سوال يہ ہے كہ آيا يہ بات صحيح ہے ؟
كيا بيوى پر خاوند كى خدمت كرنا واجب ہے ؟
سوال: 119740
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
بيوى پر خاوند كى خدمتكے واجب ہونے ميں فقھاء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے، جمہور علماء كرام اسے واجبقرار نہيں ديتے، ليكن بعض اہل علم اسے واجب كہتے ہيں.
الموسوعۃالفقھيۃ الكويتيۃ ميں درج ہے:
” فقھاء كرام كااس ميں كوئى اختلاف نہيں كہ بيوى كے ليے اپنے خاوند كى گھر ميں خدمت كرنا جائز ہے،چاہے وہ ان عورتوں ميں شامل ہوتى ہو جو اپنى خدمت خود كرتى ہوں يا نہ كرنے والىميں شامل ہوتى ہو، ليكن خدمت واجب ہونے ميں فقھاء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے.
جمہور علماء كرام جنميں شافعيہ حنابلہ اور بعض مالكيہ شامل ہيں كے ہاں بيوى پر اپنے خاوند كى خدمتكرنا واجب نہيں، ليكن اس كے ليے بہتر يہى ہے كہ وہ عادت اور رواج كے مطابق خدمتكرے.
احناف كے ہاں بيوى پرخاوند كى خدمت كرنا واجب ہے كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فاطمہ اور علىرضى اللہ تعالى عنہما كے مابين كام تقسيم كرتے ہوئے گھريلو كام كى ذمہ دارى فاطمہرضى اللہ تعالى عنہا پر اور باہر كے اعمال على رضى اللہ تعالى عنہ پر ڈالى تھى.
اس ليے احناف كے ہاںبيوى كے ليے خاوند كى خدمت كرنے كى اجرت حاصل كرنا جائز نہيں ہے.
ليكن جمہور مالكى حضراتاور ابو ثور اور ابو بكر بن ابى شيبہ اور ابو اسحاق جوزجانى كہتے ہيں كہ بيوى كوگھريلو كام رواج اور عادت كے مطابق كرنا لازم ہيں، كيونكہ فاطمہ اور على رضى اللہتعالى عنہما كے مابين نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے گھريلو كام كاج تقسيم كر ديےتھے، كہ فاطمہ گھر كے اندر والے اور على باہر كے كام سرانجام ديں گے.
اور اس ليے بھى كہ نبىكريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” اگر ميں كسى شخصكو كسى دوسرے كے ليے سجدہ كرنے كا حكم ديتا تو عورت كو حكم ديتا كہ وہ اپنے خاوندكو سجدہ كرے، اور اگر آدمى اپنى بيوى كو جبل احمر سے جبل اسود تك جائے، اور جبلاسود سے جبل احمر تك جائے تواسے ايسا كرنا ہوگا “
جوزجانى كہتے ہيں: يہاںجو اطاعت ہے و ہ ايسى چيز ميں ہے جس كا كوئى خاوند كو فائدہ نہيں ليكن اگر خاوندكى معاش كا مسئلہ ہو تو پھر وہاں اطاعت كيسے نہ ہوگى.
اور اس ليے بھى كہ نبىكريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنى بيويوں كو اپنى خدمت كرنے كا حكم ديتے ہوئے فرماياكرتے تھے:
” عائشہ مجھےكھانا كھلاؤ، عائشہ مجھے ذرا چھرى پكڑاؤ اور اسے پتھر پر تيز كر دو “
امام طبرى رحمہ اللہكہتے ہيں:
” ہر وہ عورت جوگھر ميں روٹى پكا سكتى ہو يا آٹا پيس سكتى ہو اور رواج ہو كہ وہ عورت گھر ميں يہكام خود كرے تو خاوند پر يہ كام لازم نہيں ہونگے ” انتہى.
ديكھيں: الموسوعۃالفقھيۃ ( 19 / 44 ).
موسوعۃ ميں يہبھى درج ہے:
” مالكيہ كا مسلكمزيد وضاحت سے بيان كرتے ہيں:
” .. ليكن اگر وہامير ترين گھرانے سے تعلق ركھتى ہو تو اس پر خدمت واجب نہيں، اور اگر خاوند فقيرالحال ہو تو خدمت كريگى ” انتہى
ديكھيں: الموسوعۃالفقھيۃ الكويتيۃ ( 30/ 126 ).
خدمت لازم ہونے كىتاكيد اس بات سے بھى ہوتى ہے كہ اگر معاشرے ميں بيوى اپنے خاوند كى خدمت كرتى ہواور لوگوں ميں عادت اور رواج ہو اور شادى ميں خدمت نہ كرنے كى شرط نہ لگائى گئى ہوتو بيوى كو خدمت كرنا ہوگى، كيونكہ اس كا اسى طرح شادى قبول كرنے كا معنى يہ ہے كہوہ خدمت كرنا بھى قبول كر رہى ہے، اگر قبول نہ كرتى تو شادى ميں شرط ركھتى، اس ليےكہ عرف اور عادت و رواج شرط لگانے كے مترادف ہے.
اہل علم كى ايك جماعتنے بيوى كے ليے خاوند كى خدمت كرنا واجب بيان كرنے كے ساتھ اس كے دلائل بھى ذكركيے ہيں.
شيخ الاسلام ابن تيميہرحمہ اللہ كہتے ہيں:
” بيوى پر اپنےخاوند كى اچھے طريقہ سے مثل بمثل خدمت واجب ہے، اور يہ حالات كے مطابق مختلف ہوگى،لہذا ايك ديہاتى عورت كى خدمت شہرى عورت كى طرح نہيں، اور طاقتور عورت كى خدمتكمزور عورت جيسى نہيں، ہمارے اصحاب ميں سے ابو بكر بن ابى شيبہ اور جوزجانى نے يہىكہا ہے ” انتہى
الاختيارات ( 352 ).
اور ابن قيم رحمہ اللہكہتے ہيں:
” فصل: عورت كااپنے خاوند كى خدمت كرنے كے بارہ ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا حكم:
ابن حبيب “الواضحہ ” ميں كہتے ہيں: جب على اور فاطمہ رضى اللہ تعالى عنہما نے خدمت كے بارہميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس شكايت كى تو رسول كريم صلى اللہ نے ان كےدرميان يہ فيصلہ كيا كہ فاطمہ باطنى گھر كے كام كاج كرے اور على ظاہرى باہر والےكام كرے.
پھر ابن حبيب كہتے ہيں:باطنى خدمت يہ ہے كہ: آٹا گوندھنا، اور روٹى پكانا، صفائى كرنا پانى وغيرہ لانااور گھر كا سارا كام كاج كرنا.
صحيح بخارى اور مسلمميں مروى ہے كہ فاطمہ رضى اللہ تعالى عنہا نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے چكىپيس كر ہاتھ خراب ہونے كى شكايت كرنے آئيں ليكن نبى كريم صلى اللہ عليہ كو گھر ميںنہ پايا، اور انہوں نے اس كا عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے ذكر كيا، جب نبى كريمصلى اللہ عليہ وسلم گھر تشريف لائے تو عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا نے انہيں فاطمہكے آنے كا بتايا.
على رضى اللہ تعالى عنہبيان كرتے ہيں: ہم اپنے بستر ميں ليٹ چكے تھے تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلمتشريف لائے ہم نے اٹھنا چاہا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
اپنى جگہ ہى رہو، آپہمارے درميان آ كر بيٹھ گئے حتى كہ ميں نے آپ صلى اللہ عليہ وسلم كے پاؤں كى ٹھنڈكاپنے پيٹ پر محسوس كى رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” جس چيز كا تم نےمطالبہ كيا ہے كيا ميں تمہيں اس سے بھى بہتر چيز نہ بتاؤں ؟
جب تم اپنے بستر پر آؤتو 33 بارسبحان اللہ اور 33باراور 33 بار اللہاكبر كہو تو يہ تمہارے ليے خادم سے بھى بہتر ہے.
على رضى اللہ تعالى عنہكہتے ہيں: اس كے بعد ميں نے كبھى بھى يہ عمل ترك نہيں كيا.
عرض كيا گيا: صفين والىرات بھى ترك نہيں كيا؟ تو انہوں نے فرمايا: صفين والى رات بھى ترك نہيں كيا “
اور صحيح حديث ميںاسماء رضى اللہ تعالى عنہا سے ثابت ہے كہ وہ اپنے خاوند زبير رضى اللہ تعالى عنہكے سارے گھر كى خدمت كيا كرتى تھى، اور ان كے گھوڑے كو چارا ڈالتى اور اس كى ديكھبھال كرتى “
اسماء رضى اللہ تعالىعنہا سے ثابت ہے كہ وہ گھوڑے كو چارا ڈالتيں اور پانى لاتيں اور آٹا گوندھتى تھيں،اور دو ثلث فرسخ كى مسافت سے سر پر كھجور كى گٹھلياں اٹھا كر لاتيں.
اس ميں فقھاء كرام كااختلاف پايا جاتا ہے سلف اور خلف رحمہ اللہ ميں سے ايك گروہ گھر كى مصلحت والے كامكاج واجب قرار ديتے ہيں، ابو ثور كا كہنا ہے: بيوى اپنے خاوند كى ہر چيز ميں خدمتكريگى.
ليكن ايك گروہ كسى بھىچيز ميں خدمت واجب نہيں كرتا، ان ميں امام مالك امام شافعى اور ابو حنيفہ اور اہلظاہر شامل ہيں، ان كا كہنا ہے كہ عقد نكاح تو استمتاع اور فائدہ كا متقاضى ہے نہكہ خدمت كا، ان كا كہنا ہے اس سلسلہ ميں مذكورہ احاديث تو نفلى اور مكارماخلاق پر مبنى ہيں اس ميں وجوب كہاں سے ثابت ہوتا ہے ؟
ليكن خدمت واجب كہنے والوں نے دليل اس سے لى ہےكہ يہى عادت اور معروف ہے جنہيں اللہ نے مخاطب كيا رہى عورت كہ وہ آرام كرے اور اسكا خاوند گھر كى صفائى كرتا پھرے اور خدمت كرے آٹا پيس كر گوندھے اور كپڑے دھوئےاور گھر كے سارے كام كرتا پھرے يہ تو ايك برا كام ہے.
اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان تو يہ ہے:
اور ان عورتوںكو بھى ويسے ہى حقوق حاصل ہيں جس طرح ان كے حقوق ہيں اچھے طريقہ كے ساتھ البقرۃ ( 228 ) .
اور ايك دوسرے مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:
مرد عورتوں پرنگران ہيں النساء (34).
اور جب عورت اپنے خاوند كى خدمت نہ كرے، بلكہخاوند اپنى بيوى كا خادم ہو اور وہ خدمت كرے تو كيا يہ اس خاوند كى اپنى بيوى پرنگرانى و حكرانى ہے.
اور يہ بھى كہ مہر تو عورت كى شرمگاہ اور اس سےاستمتاع كے حصول كے مقابلہ ميں ہے، اور خاوند و بيوى ميں سے ہر ايك دوسرے سے اپنىحاجت و ضرورت پورى كرتا ہے اور اللہ تعالى نے بيوى كا نان و نفقہ اور اس كى رہائشاور لباس وغيرہ تو استمتاع اور خدمت اور جو خاوندوں كى عادت ہے كے مقابلہ ميں واجبكيا ہے.
اور يہ بھى كہ مطلق معاہدے اور عقد تو عادات كےمطابق ہوتے ہيں اور انہيں عادات پر محمول كيا جاتا ہے، اور عرف اور رواج تو يہى ہےكہ عورت اپنے خاوند كى خدمت كرتى اور گھر كے كام كاج كرتى ہے.
ان كا يہ كہنا كہ فاطمہ اور اسماء رضى اللہ تعالىعنہما كى خدمت تو احسان و نيكى اور نفلى طور پر تھى، اس كا رد يہ ہے كہ فاطمہ رضىاللہ تعالى عنہا خدمت كى بنا پر تكليف اٹھاتى تھيں، تو نبى كريم صلى اللہ عليہوسلم نے على رضى اللہ تعالى عنہ كو يہ نہيں فرمايا كہ خدمت كرنا اس پر لازم نہيںبلكہ خدمت تو تمہيں كرنى چاہيے.
كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم حكم اورفيصلہ ميں كسى كى طرف مائل نہيں ہوتے تھے، اور جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نےاسماء رضى اللہ تعالى عنہا كو سر پر چارا اٹھائے ہوئے ديكھا اور زبير رضى اللہتعالى عنہ بھى ان كے ساتھ تھے تو آپ نے يہ نہيں فرمايا كہ: اس پر خدمت كرنا فرضنہيں، اور يہ ظلم ہے، بلكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس خدمت كو صحيح قرارديا، اور سب صحابہ كرام نے بھى اپنى بيويوں سے خدمت كرانا صحيح قرار ديا، حالانكہنبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو علم تھا كہ كچھ اسے ناپسند بھى كرتى ہيں اور كچھرضامند بھى ہيں، اس ميں كوئى شك و شبہ والى بات ہى نہيں ہے.
اور كسى گھٹيا اور شريف اور اسى طرح مالدار اورفقير و محتاج ميں فرق كرنا صحيح نہيں، ديكھيں سب سے شان و شرف و الى عورت اپنےخاوند كى خدمت كر رہى ہے، اور وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس خدمت كىشكايت لے كر حاصل ہوتى ہے ليكن نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كى شكايت نہيںسنى.
اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حديث ميںعورت كو قيدى كا نام ديتے ہوئے فرمايا:
” تم عورتوں كے متعلق اللہ كا تقوى اختياركرو، يقينا وہ عورتيں تمہارے پاس قيدى ہيں “
العانى: قيدى كو كہا جاتا ے، اور قيدى كا رتبہيہى ہے كہ وہ جس كى قيد ميں ہے اس كى خدمت كرے، اور اس ميں بھى كوئى شك و شبہ نہيںكہ نكاح قيد اور غلامى كى ايك قسم ہے، جيسا كہ سلف رحمہ اللہ نے كہا ہے: نكاحغلامى ہے اس ليے تمہيں يہ ديكھنا ہوگا كہ وہ اپنى عزيزہ لڑكى كو كس كى غلامى اورقيد ميں دے رہا ہے، منصف شخص كے ليے مسلك ميں راجح قول مخفى نہيں رہا، اور دليل كےاعتبار سے كيا قوى ہے وہ بھى واضح ہوچكا ہے ” انتہى
ديكھيں: زاد المعاد ( 5 / 186 ).
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” بيوى كا اپنے خاوند كى خدمت كا مسئلہ عرفاور رواج كى طرف رجوع كرتا ہے، جو عرف اور رواج ميں ہو كہ بيوى اپنے خاوند كى خدمتكرتى ہو اس ميں اس پر خاوند كى خدمت كرنا واجب ہے، اور جس ميں خدمت كا رواج اورعرف نہ ہو اس ميں واجب نہيں ہوگى، اور يہ جائز نہيں ہے كہ خاوند اپنے والدين كىخدمت پر بيوى كو مجبور كرے، اور اگر بيوى اپنى ساس اور سسر كى خدمت نہيں كرتى توخاوند كو ناراض ہونے كا حق نہيں ہے.
اسے اس سلسلہ ميں اللہ سےڈرنا اور اللہ كا تقوىاختيار كرنا، وہ اس ميں اپنى طاقت اور قوت كا مظاہرہ نہ كرے كيونكہ اللہ تعالى اسسے بھى زيادہ طاقت ركھتا ہے، اور وہ بہت ہى بلند و بالا ہے.
اللہ تعالى كا فرمان ہے:
اگر بيوياںتمہارى اطاعت كرنے لگيں تو پھر تم ان پر كوئى راہ تلاش مت كرتے پھرو، يقينا اللہتعالى بہت ہى بلند و بالا ہے انتہى
ماخوذ از: فتاوى نور على الدرب.
اور الشرح الممتع ميں شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہكہتے ہيں:
” صحيح يہى ہے كہ بيوى پر اپنے خاوند كىبہتر اور اچھے طريقہ سے خدمت كرنے كو لازم كيا جائيگا ” انتہى
ديكھيں: الشرح الممتع ( 12 / 441 ).
شيخ ابن جبرين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافتكيا گيا:
كيا بيوى پر اپنے خاوند كے ليے كھانا پكانا واجبہے ؟
اور اگر وہ نہيں پكاتى تو كيا نافرمان كہلائيگى ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
” مسلمانوں ميں ابھى تك يہى عرف اور رواج ہےكہ بيوى اپنے خاوند كى عادت كے مطابق خدمت كرتى ہے، اس كے ليے كھانا پكاتى اور اسكے كپڑے دھوتى اور گھر كے برتن وغيرہ صاف كرتى اور گھر كى صفائى بھى كرتى ہے، اورہر وہ كام جو اس كے مناسب ہو انجام ديتى ہے.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور سے آج تك يہىعرف اور رواج چل رہا ہے اس كا كوئى انكار نہيں كرتا، ليكن بيوى كو ايسا كام كرنےكى مكلف نہيں كرنا چاہيے جس ميں اس كے ليے مشقت ہو وہ اس كے ليے مشكل ہو، بلكہعادت اور قدرت و استطاعت كے مطابق ہونا چاہيے، اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے” انتہى
ديكھيں: فتاوى العلماء فى عشرۃ النساء ( 20 ).
اس سے يہ راجح ہوا كہ عادت اور عرف كے مطابقخاوند كى خدمت كرنا واجب ہے، اور عورت كو گھريلو كام كاج كرنا ہوگا، اسى طرح خاوندگھر كے باہر كے كام جس ميں كمائى وغيرہ شامل ہے سرانجام دےگا.
جو شخص جمہور علماء كرام كے قول خدمت واجب نہہونے كو ليتا ہے اسے ہم يہ كہيں گے كہ جمہور علماء كرام تو بيوى كے بيمار ہونے پرخاوند كو علاج كرانا بھى واجب نہيں كہتے كيونكہ ان كا كہنا ہے يہ بنيادى اور اساسىضرورت نہيں، يا پھر نفقہ تو نفع كے مقابلہ ميں ہے، اور علاج معالجہ تو اصل جسم كىحفاظت كے ليے ہے.
ليكن جو يہ ديكھے كہ اس دور ميں تو علاج معالجہاساسى اور بينادى ضرورت بن چكى ہے اس كے ليے يہى واضح ہوگا كہ بيوى كا علاج معالجہكرانا واجب ہے.
سوال نمبر ( 83815 ) كے جواب ميںاس كى تفصيل بيان ہو چكى ہے آپ اس مطالعہ كريں.
اور يہ سوچا جائے كہ اگر بيوى نے گھر كے كام كاجنہيں كرنے تو اور كون كريگا ؟
كيونكہ خاوند تو سارا دن كمائى ميں مشغول رہتاہے، اور اكثر لوگ گھر ميں ملازمہ ركھنے اور اس كى اجرت برداشت كرنے كى استطاعتنہيں ركھتے.
اور اگر عورتيں خاوند كى خدمت نہ كريں اور گھريلوكام كاج سے انكار كر ديں تو مرد ان سے شادى كرنے سے ہى اعراض كرنے لگيں گے، يا پھروہ عقد نكاح ميں خدمت كى شرط ركھيں گے تا كہ كوئى اشكال ہى نہ رہے.
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات