0 / 0
5,20801/03/2006

كيا بے آباد جگہ پر ملازمت كرنے والوں پر نماز جمعہ واجب ہے ؟

سوال: 11556

ہم كچھ لوگ اپنے گھر اور اہل و عيال سے دور كام كرتے ہيں، جہاں نہ تو كوئى رہتا ہے اور نہ ہى مسجد ہے، ہمارے كام اور گھر رہنے كى مدت برابر ہے، يعنى ہم اٹھائيس دن كام كريں تو اٹھائيس دن چھٹى ہوتى ہے، اور سارا سال يہى ہوتا ہے، اور روزانہ بارہ گھنٹے كام كرتے ہيں.

كيا اس جگہ پر نماز جمعہ واجب ہے يا نہيں ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اس جگہ آپ پر نماز جمعہ واجب نہيں، بلكہ آپ لوگ ظہر كى نماز ادا كرينگے، اس ليے كہ آپ وہاں كے رہائشى نہيں ( يعنى آپ وہاں مستقل مقيم نہيں ہيں ) اور وہاں كوئى رہائشى بھى نہيں جس كے ساتھ آپ لوگ نماز جمعہ ادا كريں.

مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے مندرجہ ذيل سوال كيا گيا:

كچھ لوگ شہر سے باہر زراعت كے ليے جاتے اور وہاں تقريبا ہر برس كم از كم دو ماہ اور زيادہ سے زيادہ چار ماہ رہتے ہيں، نماز جمعہ كے ليے شہر آنا مشكل ہے، تو كيا وہ ان پر نماز جمعہ واجب ہے، يا جائز ہے ؟ يا كام والى جگہ ميں ان كے ليے نماز جمعہ ادا كرنى جائز نہيں، بلكہ تكليف كر كے انہيں شہر ضرور جانا ہو گا ؟

يا پھر مسافر كى طرح ان سے جمعہ ساقط ہو جاتا ہے، اور ملازمت والى جگہ ميں كتنى مدت رہنے سے جمعہ ساقط ہو گا ؟

كميٹى كا جواب تھا:

اگر تو وہ كھيت جہاں يہ لوگ كام كرتے ہيں وہاں كوئى رہتا ہے اور وہ اس كى رہائش ہے تو ان پر وہاں كے رہائشيوں كے تابع ہوتے ہوئے نماز جمعہ واجب ہے، اور وہ ان كے ساتھ مل كر نماز جمعہ ادا كرينگے، يا پھر ان كے علاوہ جو بھى لوگ انہيں ميسر ہوں ان كے ساتھ مل كر نماز جمعہ ادا كريں، كيونكہ نماز جمعہ اور اس كى ادائيگى كى كوشش ميں عمومى دلائل اسى پر دلالت كرتے ہيں.

اور اگر ان كھيتوں اور فارموں ميں كام كرنے والے لوگ اپنى بستى يا ارد گرد كى كسى اور بستى كى اذان سنتے ہيں تو ان كے ليے وہاں جاكر نماز جمعہ ادا كرنے كى كوشش كرنا واجب ہے، تا كہ مسلمانوں كے ساتھ مل كر نماز جمعہ ادا كريں؛ كيونكہ اللہ تعالى كا عمومى فرمان ہے:

اے ايمان والو! جب جمعہ كے روز نماز كے ليے اذان دى جائے تو اللہ تعالى كى ذكر كى طرف چلے آؤ الجمعۃ ( 9 ).

اور اگر ان كھيتوں اور فارموں ميں كوئى رہائشى شخص نہيں اور نہ ہى وہ ارد گرد كى بستى سے جمعہ كى اذان سنتے ہيں تو ان پر جمعہ واجب نہيں ہوتا وہ ظہر كى نماز باجماعت ادا كرينگے.

كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں مدينہ كے ارد گرد قبائل اور عوالى ميں كھيت تھے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے وہاں كے لوگوں كو نماز جمعہ كے ليے آنے كا حكم نہيں ديا، اور اگر ايسا ہوتا تو نقل كيا جاتا، جو اس طرح كے لوگوں پر مشقت كى وجہ سے عدم وجوب كى دليل ہے.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ ولافتاء ( 8 / 221 – 222 ).

اور كميٹى كے علماء كا يہ بھى كہنا ہے:

جس كمپنى ميں آپ كام كرتے ہيں اگر تو وہ ايسےعلاقے ميں ہے جہاں جمعہ نہيں پڑھا جاتا، اور نہ ہى اس كے قريب كہيں جمعہ كى نماز ہوتى ہے اور كمپنى ميں كوئى وہاں كا رہائشى بھى نہيں جن پر جمعہ واجب ہو، تو آپ لوگوں پر جمعہ واجب نہيں، بلكہ آپ نماز ظہر ادا كرينگے.

ليكن اگر كمپنى اس علاقے ميں ہے جہاں نماز جمعہ ادا ہوتى ہے، يا پھر اس كے قريب كہيں نماز جمعہ ہوتا ہے كہ آپ كو اس كى اذان سنائى ديتى ہو يا پھر آپ كے ساتھ وہاں كے رہائشى رہتے ہوں جن پرجمعہ واجب ہے تو پھر وہاں كے رہائشيوں كے تابع ہوتے ہوئے نماز جمعہ كى ادائيگى واجب ہے. اھـ

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 8 / 220 ).

شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى سے بعض طلبہ نے اجنى ملك ميں نماز جمعہ كے حكم كے متعلق دريافت كيا تو ان كا جواب تھا:

” اہل علم نے بيان كيا ہے كہ آپ اور آپ جيسے لوگوں پر نماز جمعہ واجب نہيں، بلكہ آپ كى طرف سے ادائيگى اور صحيح ہونا محل نظر ہے؛ كيونكہ آپ مسافر اور خانہ بدوشوں كے مشابہ ہيں، اور جمعہ تو كسى علاقے كے مقيم رہائشيوں پر واجب ہوتا ہے، اس كى دليل يہ ہے كہ:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مسافروں اور خانہ بدوشوں كو جمعہ كى ادائيگى كا حكم نہيں ديا، اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور صحابہ كرام نے اپنے سفر ميں بھى جمعہ ادا نہيں كيا.

صحيح احاديث سے ثابت ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حجۃ الوداع كے موقع پر عرفہ ميں جمعہ كے دن ظہر كى نماز ادا كى اور جمعہ نہيں پڑھا، اور نہ ہى حجاج كو اس كا حكم ديا، كيونكہ وہ مسافروں كے حكم ميں ہيں، الحمد ميرے علم كے مطابق تو اس مسئلہ ميں كوئى اختلاف نہيں، صرف شاذ سا اختلاف ہے جو بعض تابعين ميں تھا، ليكن يہ قابل التفات نہيں.

ليكن اگر مقيم مسلمان لوگوں كو آپ نماز جمعہ ادا كرتے ہوئے پائيں تو آپ اور آپ جيسے طلب علم يا تجارت كى بنا پر عارضى مقيم لوگوں كے ليے نماز جمعہ ادا كرنا مشروع ہے، تا كہ ان كے ساتھ نماز ادا كر كے جمعہ كى فضيلت حاصل ہو سكے.

اور اس ليے بھى كہ اكثر اہل علم كا كہنا ہے كہ اگر مسافر شخص كسى ايسى جگہ ٹھرے جہاں نماز جمعہ ہوتى ہو اور اس كى يہ اقامت اسے قصر نماز كرنے ميں مانع ہو تو مقيم رہائشى كے تابع اس پر بھى جمعہ واجب ہے. اھـ

ديكھيں: فتاوى ابن باز ( 12 / 377 ).

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android