0 / 0
3,28410/07/2012

نانى كى مقروض ہے كيا يہ رقم نانى كے علاج معالجہ پر خرچ كى جا سكتى ہے

سوال: 106389

ميرى نانى نے مجھے كچھ رقم بطور قرض دى اور اس كے بعد بيمارى كى بنا پر ان كے جسم كا آدھا حصہ مفلوج ہوگيا اب انہيں علاج معالجہ اور لباس و پيمپرز وغيرہ كى ضرورت ہے كيا ميں نانى كا قرض ان كے علاج معالجہ پر صرف كر كے ادا كر سكتى ہوں، ميرى والدہ نانى كى ديكھ بھال كريگى كيا ميں اسے بھى ديكھ بھال كے پيسے دے سكتى ہوں اور يہ قرض كى رقم سے كاٹ لى جائے تو كيا جائز ہو گا ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اول:

اگر كوئى شخص كسى دوسرے كو بطور قرض كچھ رقم دے تو وہ قرض كى ادائيگى سے قبل اس ميں سے بطور ہديہ يا كوئى فائدہ كى شكل ميں كچھ بھى لينے كا حق نہيں ركھتا، ليكن تين حالات ميں لے سكتا ہے:

پہلى حالت:

يہ كہ وہ چيز قرض سے قبل عادت اور رواج ہو.

دوسرى حا لت:

وہ بطور ہديہ اس نيت سے لے كہ وہ اسى طرح كى چيز واپس كريگا.

تيسرى حالت:

وہ اسے لے كر اسے قرض ميں شمار كرے.

مثلا اگر آپ كى نانى يا دادى كے ايك ہزار ريال ہوں اور آپ اسے ايك سو ريال كى كوئى چيز پيش كريں اور قرض حاصل كرنے سے قبل آپ كى اپنى نانى كے ساتھ يہ عادت نہ تھى، تو پھر صرف واپس كرنے كى نيت سے ہى لے سكتے ہيں يا پھر اسے قرض ميں شامل كر ليں تو پھر باقى نو سو ريال قرض رہ جائيگا.

زاد المستقنع ميں درج ہے:

” اگر قرض خواہ شخص كے ليے قرض كى ادائيگى سے قبل كوئى ايسى چيز پيش كرے جس كى عادت اور رواج نہ ہو تو يہ جائز نہيں، ليكن اگر وہ اسے اس جيسا بدلہ دينے يا پھر اسے قرض ميں شامل كرنے كى نيت ركھتا ہو تو ٹھيك ہے.

اور كشاف القناع ميں درج ہے:

” اور اگر مقروض شخص نے كوئى ايسا كام كيا جس ميں قرض خواہ كا فائدہ ہو يعنى قرض ادا كرنے سے قبل كوئى ہديہ دے تو يہ جائز نہيں، جيسا كہ اوپر بيان ہوا ہے جب تك قرض خواہ شخص اسے قرض ميں شامل كرنے كى نيت نہ كرے يا اسے اس جيسا ہديہ دے.

يعنى اس ميں فائدہ ہو تو جائز ہے، ليكن اگر يہ ان كى آپس ميں عادت چل رہى ہو كہ وہ ايك دوسرے كو ہديہ ديتے ہوں تو جائز ہے.

كيونكہ انس رضى اللہ تعالى كى مرفوع حديث ميں ہے كہ:

جب تم ميں سے كوئى كسى دوسرے كو قرض دے تو اسے ہديہ ديا جائے، يا اسے سوارى كى پيش كش كى جا ئے تو وہ اسے قبول مت كرے اور نہ ہى سوار ہو، ليكن اگر ان دونوں كى پہلے سے عادت ہو تو پھر كوئى بات نہيں ”

اسے ابن ماجہ نے روايت كيا ہے اور اس كى سند ميں كلام كى گئى ہے ” انتہى

ديكھيں: كشاف القناع ( 3 / 318 ).

دوم:

اگر آپ كى نانى كو علم نہيں كہ اس حالت ميں اسے آپ كے ہديہ اور خرچ كو قبول كرنے سے ركنا لازم ہے، يا پھر وہ يہ خيال كرتى ہو كہ آپ جو كچھ كر رہى ہو وہ صلہ رحمى اور حسن سلوك ميں شامل ہوتا ہے تو پھر آپ اس نفقہ اور اخراجات كو نانى كے علم كے بغير اسے قرض ميں شامل نہيں كر سكتى، بلكہ اس سے اجازت لينا يا پھر اس كے علم ميں لانا ضرورى ہوگا، اگر وہ آپ كو اس كى اجازت دے دے اور آپ كو اپنى ضرورت كى اشياء خريدنے كى وكيل بنائيں تو پھر اسے قرض ميں شامل كرنے ميں كوئى حرج نہيں.

ليكن اگر وہ اجازت نہيں ديتى تو پھر قرض اسى طرح اور اتنا ہى باقى رہےگا، اور آپ كو نانى كے ساتھ حسن سلوك كرنے يا ترك كرنے كا اختيار حاصل ہوگا.

آپ كے علم ميں ہونا ضرورى ہے كہ انسان كو ايك حسن سلوك كرنے والے كے روپ ميں ظاہر ہو كر اس كے مال سے ہى خرچ نہيں كرنا چاہيے، كيونكہ تو دھوكہ ميں شامل ہوتا ہے كيونكہ ہو سكتا ہے نانى اپنا مال علاج معالجہ ميں نہ لگانا چاہے، اور كبھى كبھار ڈاكٹر كے پاس جانا اختيار كر كے اپنا مال محفوظ ركھنا چاہتى ہو.

لہذا آپ كے ليے صحيح اور احتياط اسى ميں ہے كہ آپ نانى كو اس كا مال واپس كريں، خاص كر جب وہ ايسى حالت ميں ہے جس ميں اسے مال اور اخراجات كى ضرورت ہے، اور اگر آپ قرض واپس نہ كر سكتى ہوں يا پھر قرض كى رقم زيادہ ہو تو آپ اسے قسطوں ميں واپس كر سكتى ہيں، اب آپ جو طريقہ اختيار كرنا چاہيں كر ليں، يا پھر نانى سے اجازت حاصل كريں.

يہاں آپ كو يہ تنبيہ كريں گے كہ اگر نانى كے پاس ضرورت كے مطابق مال نہيں اور اس كا كوئى اور قريبى رشتہ دار نہيں تو پھر استطاعت ركھنے والے نواسے نواسى پر نانى كا نفقہ واجب ہوگا، يا اس پر جو نانى كا قريب ترين رشتہ دار ہے، ليكن فقير اور تنگ دست شخص پر يہ نفقہ واجب نہيں ہوگا.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

” دادے دادى اور نانے نانى چاہے اس سے بھى اوپر والى نسل ميں ہوں اور اولاد كى اولاد چاہے جتنے بھى نيچے نسل ميں ہوں پر نفقہ كرنا واجب ہے، امام شافعى اور ثورى اور اصحاب الرائے كا يہى قول ہے ”

پھر كہتے ہيں:

اس نفقہ كے واجب ہونے كى تين شروط ہيں:

پہلى شرط:

وہ فقير و تنگ دست ہوں اور ان كے پاس مال نہ ہو اور نہ ہى ان كى كوئى آمدنى ہو جو اخراجات كے ليے كافى ہو…

دوسرى شرط:

جس پر ان كا نفقہ واجب ہوتا ہے اور وہ اس پر خرچ كريں تو يہ ان كے اپنے نفقہ سے زائد مال ميں سے ہو…

تيسرى شرط:

نفقہ كرنے والا شخص وارث ہو؛ كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:

اور وارث پر بھى اسى طرح ہے البقرۃ ( 233 ).

پھر انہوں نے ان رشتہ داروں كے حال كا ذكر كيا ہے جو وارث نہيں بنتے، ان ميں سے ہميں درج ذيل كى ضرورت ہے:

” قريبى رشتہ دار كسى ايسے رشتہ دار سے كى بنا پر محجوب ہو جو اس سے بھى زيادہ قريب رشتہ دار ہے، تو ديكھا جائيگا كہ اگر قريب تر رشتہ دار مالدار ہے تو نفقہ اس پر واجب ہوگا، اور محجوب شخص پر كچھ نہيں؛ كيونكہ قريب تر رشتہ دار وراثت كا زيادہ حقدار ہے، اس طرح نفقہ كا بھى وہى حق ركھتا ہے وہى نفقہ كريگا.

اور اگر قريب تر رشتہ دار تنگ دست ہے اور دوسرا نفقہ برداشت كرنے والا اصل يا فرع ميں سے ہو تو آسودہ حال شخص پر نفقہ واجب ہوگا ” انتہى

ديكھيں: المغنى ابن قدامہ طبع مكتبہ ھجر ( 11 / 374 – 376 ).

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال وجواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android