0 / 0
3,38209/07/2012

برادرى كا رشتہ نہ ہونے كى بنا پر والد نے دينى رشتہ ٹھكرا ديا

سوال: 105321

ميں انيس برس كى ہوں، ميرے ليے ايك دينى اور صوم و صلاۃ كے پابند نوجوان كا رشتہ آيا، ميں نے استخارہ بھى كيا اور ميرا دل اس رشتہ پر مطمئن اور موافق ہے، ليكن ميرے والد صاحب نے صرف اس بنا پر يہ رشتہ ٹھكرا ديا كہ يہ ہمارى برادرى سے تعلق نہيں ركھتا.
ميں نے اس سلسلہ ميں والد صاحب سے بات كى كہ اللہ كے ہاں كسى عربى اور عجمى كا فرق نہيں صرف تقوى كا فرق ہے، اور ميں عفت و عصمت كى محتاج ہوں، تو والد صاحب نے مجھے بےشرم اور بےحياء قرار ديا كہ ميں كنوارى ہو كر بھى اس رشتہ پر موافقت طلب كر رہى ہوں.
حالانكہ مجھے علم ہے كہ اس طرح كے دينى مسائل ميں وضاحت كرنى چاہيے شرمانا نہيں چاہيے، ليكن والد صاحب نے مجھے بہت شديد زدكوب كيا تو ميں نے انہيں كہا: اللہ تعالى اس ظلم پر راضى نہيں، موافقت اور رضامندى ميرا حق ہے، تو والد صاحب نے جواب ديا كہ شريعت اسلاميہ غير برادرى ميں شادى كرنے كى اجازت نہيں ديتى تا كہ مشكلات پيدا نہ ہوں.
حالانكہ ميں اپنى برادرى ميں بالكل شادى نہيں كرنا چاہتى كيونكہ ان ميں اكثر مشكلات رہتى ہيں، اور ان ميں افہام و تفہيم جيسى كوئى چيز نہيں ہے، ميں نے والد صاحب سے كہا كہ وہ علماء كرام سے دريافت كريں اگر حق ان كے ساتھ ہے تو ميں ان كى رائے كے مطابق شادى كر لونگى، ليكن اگر مجھے اختيار كا حق ہے تو پھر ميں اسى نوجوان سے شادى كرونگى…
ميرے والد صاحب دين پر عمل كرنے والے ہيں وہ صرف برادرى كوراضى كرنے كے ليے انكار كر رہے ہيں، كہ مجھے راضى كر كے سارى برادرى اور خاندان كو ناراض نہيں كر سكتے، برائے مہربانى مجھے اس سلسلہ ميں فتوى عنائت فرمائيں جسے والد صاحب بھى ديكھيں گے، اور كوئى نصيحت بھى فرمائيں. اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے.

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اول:

جمہور فقھا كرام نكاح ميں كفاءۃ يعنى برابرى كى شرط ركھتے ہيں، ليكن ان كا اس ميں اختلاف پايا جاتا ہے كہ اس ميں معتبر صفات كيا ہونگى، كچھ فقھاء نسب كا اعتبار كرتے ہيں كہ نسب ايك جيسا ہو، اور كچھ صنعت و حرفت كى برابرى كى شرط لگاتے ہيں، اور كچھ نے مالدارى و آسانى كى شرط ركھى ہے.

ليكن اس ميں راجح يہى ہے كہ دينى برابرى ہونى چاہيے اس ليے كوئى كافر شخص كسى مسلمان عورت سے شادى نہيں كر سكتا، اور نہ ہى فاسق و فاجر شخص كسى عفت و عصمت ركھنے والى عورت سے.

اس مذہب كے دلائل بيان كرتے ہوئے ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا نكاح ميں برابرى و كفاءۃ كے حكم كے متعلق فصل "

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اے لوگو ہم نے تمہيں مرد و عورت سے پيدا كيا ہے، اور تمہارے كنبے قبيلے اور برادرياں اس ليے بنائى ہے تا كہ تم ايك دوسرے كى پہچان كر سكو، يقينا تم ميں سے اللہ تعالى كے ہاں سب سے زيادہ عزت والا وہى ہے جو تم ميں سب سے زيادہ تقوى و پرہيزگارى والا ہے الحجرات ( 13 ).

اور ايك مقام پر اللہ رب العزت كا فرمان ہے:

يقينا سب مومن ايك دوسرے كے بھائى ہيں الحجرات ( 10 ).

اور ايك دوسرے مقام پر ارشاد ربانى ہے:

مومن مرد اور مومنہ عورتيں ايك دوسرے كے دوست و ولى ہيں التوبۃ ( 71 ).

اور ايك جگہ ارشاد بارى تعالى اس طرح ہے:

چنانچہ اللہ رب العزت نے ان كى دعا قبول كر لى كہ ميں كسى بھى عمل كرنے والے كے عمل ضائع نہيں كرونگا، چاہے وہ عمل كرنے والا مرد ہو يا عورت، تم ايك دوسرے ميں سے ہو آل عمران ( 195 ).

اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" كسى عربى كو كسى عجمى پر كوئى فضيلت نہيں، اور نہ ہى كسى عجمى كو كسى عربى پر فضيلت ہے، اور نہ ہى كسى سفيد كو كالے پر اور نہ كسى كالے كو سفيد پر فضيلت حاصل ہے، مگر تقوى و پرہيزگارى كے ساتھ، سب لوگ آدم كى اولاد ہيں، اور آدم عليہ السلام مٹى سے پيدا ہوئے ہيں "

اور ايك حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" بنو فلاں ميرے اولياء و دوست نہيں، بلكہ ميرے اولياء و دوست تو متقى و پرہيزگارى ہيں وہ جہاں بھى ہوں اور جيسے بھى ہوں "

اور ترمذى ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" اگر تمہارے پاس كوئى ايسا شخص آئے جس كا دين اور اخلاق تمہيں پسند ہو تو تم اس سے ( اپنى ولايت ميں موجود لڑكى كى ) شادى كر دو، اگر ايسا نہيں كروگے تو پھر زمين ميں بہت لمبا چوڑا فتنہ و فساد بپا ہو جائيگا.

صحابہ كرام نےعرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم: اگر اس ميں كچھ ہو تو ؟

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تين بار فرمايا:

" اگر تمہارے پاس ايسا شخص آئے جس كا دين اور اخلاق تمہيں پسند ہو تو اس كا نكاح كر دو "

اور بنى بياضہ كو رسول كو كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ابو ہند كا نكاح كر دو، اور اسے نكاح ميں اپنى بيٹى دو، حالانكہ وہ حجام تھا "

اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے زينب بنت جحش جو كہ قريشى خاندان سے تعلق ركھتى تھى كى شادى اپنے مولا اور غلام زيد بن حارثہ رضى اللہ تعالى عنہ سے كى، اور بنو فہر جو كہ قريش خاندان كا ايك قبيلہ ہے كى عورت فاطمہ بنت قيس كى شادى اسامہ بن زيد رضى اللہ تعالى عنہ سے كى.

اور اسى طرح بلال بن رباح رضى اللہ تعالى عنہ كى شادى عبد الرحمن بن عوف رضى اللہ تعالى عنہ كى بہن سے كى.

اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور طيب و پاكيزہ عورتيں طيب و پاكيزہ مردوں كے ليے ہيں اور طيب و پاكيزہ مرد طيب و پاكيزہ عورتوں كے ليے ہيں النور ( 26 ).

اور اگر تمہيں ڈر ہو كہ يتيم لڑكيوں سے نكاح كر كے تم انصاف نہ كر سكو گے تو اور عورتوں ميں سے جو بھى تمہيں اچھى لگيں تم ان سے نكاح كر لو النساء ( 3 ).

اس ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا حكم اس كا متقاضى ہے كہ برابرى ميں اصلا اور كمالا دونوں لحاظ سے دين كى برابرى كا لحاظ ركھا جائيگا، اس ليے كوئى مسلمان عورت كسى كافر مرد سےشادى نہيں كريگى، اور نہ ہى كوئى عفت و عصمت كى مالك عورت كسى فاسق و فاجر شخص سے شادى كريگى.

كتاب و سنت نے برابرى ميں اس كے علاوہ كوئى اور چيز معتبر نہيں ركھى، كيونكہ كتاب و سنت ميں كسى مسلمان عورت كا كسى زانى شخص سے نكاح كرنا حرام قرار ديا گيا ہے اور حسب و نسب اور صنعت و حرفت كا اعتبار نہيں كيا، اور نہ ہى مالدار اور آزاد كا اعتبار كيا ہے.

اس ليے كسى غلام شخص كا كسى حسب و نسب ركھنے والى آزاد عورت سے نكاح جائز ہے، ليكن شرط يہ ہے كہ وہ عفت و عصمت ركھنے والا ہو، اسى طرح كتاب و سنت نے غير قريشى شخص كے ليے قريشى خاندان كى عورتوں سے شادى كرنا جائز قرار ديا ہے، اور غير ہاشمى خاندان كے اشخاص كى شادى ہاشمى خاندان كى عورتوں سے جائز ہے، اور اسى طرح فقراء و مساكين مردوں كى شادى مالدار عورتوں سے كرنا جائز كيا ہے. انتہى

ديكھيں: زاد المعاد ( 5 / 144 ).

كفاءۃ اور برابرى ميں صرف دين كا اعتبار كيا جائيگا يہى قول عمر اور ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہم اور محمد بن سيرين اور عمر بن عبد العزيز رحمہم اللہ سے مروى ہے، اور امام مالك رحمہ اللہ نے بالجزم يہى كہا ہے، اور امام احمد رحمہ اللہ سے بھى يہى روايت ہے، اور شيخ الاسلام ابن تيميہ اور ابن قيم رحمہ اللہ نے بھى اسے ہى اختيار كيا ہے.

ديكھيں: المغنى ( 7 / 27 ) الموسوعۃ الفقھيۃ ( 34 / 271 ) حاشيۃ الدسوقى ( 2 / 249 ) اور الفتاوى الھنديۃ ( 1 / 290 ) تحفۃ المحتاج ( 7 / 280 ) كشاف القناع ( 5 / 67 ).

اس اگر عورت كے ليے ايسا رشتہ آئے جس كا دين اور اخلاق پسند اور صحيح ہو تو يہ رشتہ رد نہيں كيا جائيگا؛ جيسا كہ حديث ميں وارد ہے، چاہے وہ برادرى سے تعلق ركھتا ہو يا غير برادرى يعنى كسى دوسرى برادرى اور قبيلہ سے تعلق ركھے.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اس ميں وہ بھى شامل ہے جو آج كل لوگوں ميں رواج پا چكا اور رسم بن چكى ہے كہ اب قبيلہ سے تعلق ركھنے والى عورت كسى خضيرى شخص سے شادى نہيں كرتى، اور خضيرى شخص كسى قبيلہ سے تعلق ركھنے والى عورت سے شادى نہيں كرتا.

خضيرى اس شخص كو كہتے ہيں جو كسى عرب قبيلہ كى طرف منسوب نہيں ہوتا، اور اس كى اصل موالى ميں شامل ہوتى ہے، يہ موالى قبائل ميں داخل ہو كر ان كے ساتھ مل گئے، ليكن جب ا نكى اصل قبيلہ سے تعلق نہ ركھتى تھى اس ليے انہيں خضيرى كہا جانے لگا اور دوسروں كو قبيلى، يہ برى اور باطل عادات و رسم و رواج ميں شامل ہوتا ہے كہ قبيلى شخص كسى خضيرى عورت سے اور خضيرى شخص كى قبيلى عورت سے شادى نہيں كرتا.

رہا اول كہ كوئى قبيلى شخص كسى خضيرى عورت سے شادى نہيں كرتا، ميرے علم كے مطابق تو كسى عالم دين نے بھى مطلقا ايسا نہيں كہا؛ كيونكہ يہاں خاوند تو بيوى كے زيادہ اچھے شرف و نسب والا ہے، يعنى خاوند قبيلى ہے جو عرب كے كسى معروف قبيلہ كى طرف منسوب ہے، ليكن بيوى غير قبيلى ہے.

يہ تو مجھے علم نہيں كہ كسى عالم دين نے كہا ہو كہ كوئى قبيلى شخص كسى خضيرى عورت سے شادى مت كرے ليكن بعض علماء كرام يہ كہتے ہيں كہ: اگر كچھ اولياء مخالفت كرتے ہوں تو پھر كوئى قبيلى شخص كسى خضيرى عورت سے شادى نہ كرے، اگرچہ يہ قول بھى مرجوح ہے صحيح نہيں، ليكن يہ قول كہا ضرور گيا ہے، ليكن ہمارے علم كے مطابق تو پہلا كسى نے كہا بھى نہيں كہ كوئى خضيرى عورت كسى قبيلى شخص سے شادى نہ كرے.

يہ ايك برى اور غلط عادت ہے جو لوگوں كى سوچ سے محو كرنى چاہيے، اور اسے ان كے ذہن سے نكال باہر كرنے كى كوشش كى جائے، يہ كہا جائيگا كہ: كيا يہ خضيرى عورت يا يہ خضيرى مرد آزاد نہيں ہيں ؟

يہ صحيح ہے كہ مملوكہ لونڈى سے كوئى آزاد شخص شروط كے بغير نكاح نہيں كر سكتا جيسا كہ قرآن مجيد كى درج ذيل آيت ميں آيا ہے:

اور جو كوئى تم ميں سے آزاد عفيف عورت سے شادى كرنے كى استطاعت نہيں ركھتا تو پھر مومن لونڈيوں سے شادى كر لو النساء ( 25 ).

ليكن آزاد عورت كے بارہ ميں ہم يہ كہيں گے كہ كس دين ميں آيا ہے كہ كوئى آزاد شخص آزاد عورت سے شادى نہ كرے؟

اس ليے كچھ علماء كرام كا كہنا ہے كہ قبيلى عورت كسى خضيرى مرد سے اس وقت شادى مت كرے جب اس كے كچھ اولياء اس كى مخالفت كرتے ہوں، بلكہ بعض علماء كرام نے تو غلو كرتے ہوئے يہاں تك كہا ہے كہ: اصل ميں يہ نكاح صحيح ہى نہيں ہوگا.

يہ سب قول كمزور اور ضعيف ہيں اور قابل التفات نہيں كيونكہ مومن ايك دوسرے كے كفو ہيں، اور مسلمانوں كا خون اور ان كے احوال برابر ہيں، ان ميں تفريق كى كوئى دليل نہيں پائى جاتى " انتہى

ماخوذ از: اللقاء الشہرى نمبر ( 20 ).

دوم:

جب يہ واضح ہو گيا ہے تو ہم باپ كو نصيحت كرتے ہيں كہ وہ بيٹى كے رشتہ كے ليے آنے والے نوجوان كے بارہ ميں تحقيق كرے اگر تو وہ نيك و صالح اور راہ مستقيم پر چل رہا ہے تو اپنى بيٹى كى اس سے شادى كر دے، كيونكہ صاحب دين اور نيك و صالح شخص ہى اس كى بيٹى كى حفاظت اور ديكھ بھال كريگا، اگر وہ اس سے محبت كريگا تو اس كى عزت كريگا، اور اگر اسے ناپسند بھى كرے تو اس پر ظلم بھى نہيں كريگا.

اگر لڑكى آنے والے رشتہ كے بارہ ميں اپنى رائے كا اظہار كرتى ہے يہ قابل ملامت نہيں، كہ اس نے آنے والے رشتہ كو قبول كرنے كى رغاگر لڑكى آنے والے رشتہ كے بارہ ميں اپنى رائے كا اظہار كرتى ہے يہ قابل ملامت نہيں، كہ اس نے آنے والے رشتہ كو قبول كرنے كى رغبت كا اظہار كيا ہے كيونكہ وہ اسے كفو اور مناسب سمجھتى ہے، قابل ملامت اس ليے نہيں كہ وہ لڑكى تو حلال كے حصول كى كوشش و سعى ميں ہے اور عفت و عصمت چاہتى ہے.

جب نسب اور برادرى ميں تشدد اور سختى كرنا كہ برادرى سے باہر رشتہ نہ كرنا ايك غلط اور برى عادت ہے جو لوگوں كى فكر اور سوچ سے محو كرنا ضرورى ہے، جيسا كہ شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں، تو پھر باپ كو اپنے خاندان كے كچھ افراد كے اعتراض كى طرف ملتفت نہيں ہونا چاہيے.

بلكہ اس كا غير قبيلى اور غير برادرى شخص كا رشتہ قبول كرنا اور اس سے اپنى بيٹى كى شادى كر دينا اس برى عادت كو محو كرنے ميں ممد و معاون ثابت ہوگا.

اس عادت كى بنا پر معاشرے ميں كتنى خرابياں پيدا ہوئى ہے، اور كتنى ہى لڑكياں شادى كى عمر كى حد سے تجاوز كر چكى ہيں، اور غير شادى شدہ لڑكيوں كى كثرت ہو چكى ہے اور اسى طرح طلاق كى كثرت ہو گئى ہے؛ كيونكہ يہاں قبيلہ اور برادرى كو ديكھا جا رہا ہے، اور اس كى مانى جا رہى ہے، اور آدمى كے دين اور اس كى استقامت كو نہيں ديكھا جا رہا.

بعض اوقات ہوتا ہے آدمى كسى ايسى عورت سے شادى كر لے جس كى اسے رغبت ہى نہيں، اور اسى طرح كوئى برادرى اور قبيلہ كى بنا پر كوئى عورت كسى ايسے مرد سے شادى كر ليتى ہے جس ميں اس كى رغبت ہى نہيں ہوتى، تو اس كا نتيجہ ظاہر ہے مشكلات و پريشانيوں كى صورت ميں ہى نكلےگا، اور پھر انجام عليحدگى اور طلاق ہوگا.

اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے كہ وہ ہميں اور آپ كو رشد و ہدايت اور صحيح راہ كى توفيق نصيب فرمائے، ہميں اور آپ كو اپنى اطاعت اور اپنى رضامندى و خوشنودى والے اعمال كرنے كى توفيق نصيب فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android