0 / 0
5,07611/11/2008

حرام اشياء كھانے كا حكم

سوال: 100214

كيا حرام كھانا فى ذاتہ گناہ شمار ہوتا ہے، ميں حرام نہيں كھاتا بلكہ يہ عمومى طور پر سوال كر رہا ہوں ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

حرام كھانا گناہ ہے، ايسا كرنے والے كے متعلق نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى جانب بہت شديد قسم كى وعيد آئى ہے.

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

” جو گوشت بھى حرام پر پلتا ہے اس كے ليے آگ زيادہ بہتر ہے “

سنن ترمذى حديث نمبر ( 558 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے صحيح قرار ديا ہے.

يربو: پرورش پانا اور پلنا.

سحت: حرام .

اہل علم كا فيصلہ ہے كہ حلال اور حرام كى معرفت اور علم دين كے اہم امور ميں سے ہے، علامہ رملى رحمہ اللہ كا كہنا ہے:

اور ان دونوں ( يعنى حلال اور حرام ) كى معرفت حاصل كرنا دين كے اہم امور ميں سے ہے، كيونكہ حلال اور حرام كى معرفت فرض عين ہے، اور حرام كھانے والے كے ليے بہت شديد قسم كى وعيد وارد ہے ” انتہى.

ديكھيں: نھايۃ المحتاج ( 8 / 150 ).

اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بھى بتايا ہے كہ حرام كھانا دعا اور عمل كى قبوليت ميں مانع ہے، صحيح مسلم ميں ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

” لوگو يقينا اللہ تعالى طيب ہے اور پاكيزہ اور طيب كے علاوہ كچھ قبول نہيں كرتا، اور بلا شبہ اللہ تعالى نے مومنوں كو بھى وہ حكم ديا ہے جو اس نے رسولوں كو حكم ديا اور فرمايا:

اے پيغمبروں! حلال اشياء كھاؤ اور نيك و صالح عمل كرو، تم جو كچھ كر رہے ہو اس سے ميں بخوبى واقف ہوں

اور فرمايا:

اے ايمان والو! ہم نے جو تمہيں پاكيزہ رزق ديا ہے اس ميں سے كھاؤ .

پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايسے شخص كا ذكر فرمايا جو لمبا سفر كرے اور گرد و غبار ميں اٹ كر پراگندہ ہو اور اپنے دونوں ہاتھ آسمان كى جانب اٹھا كر يا رب يا رب كى صدا لگاتا پھرے، حالانكہ اس كا كھانا حرام كا، اور اس كا پينا حرام كا، اور اس كا لباس حرام كا، اور اس نے خوراك ہى حرام كى كھائى تو اس كى دعا كيسے قبول ہو گى “

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1686 ).

علامہ ابن رجب حنبلى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

” اس سے مراد يہ ہے كہ رسول اور ان كى امتيں پاكيزہ اشياء جو حلال ہيں وہ كھانے اور اعمال صالحہ كرنے پرمامور ہيں، تو جب كھانا حلال ہو گا، تو نيك و صالح عمل بھى قبول ہوگا، ليكن اگر كھانا حلال نہيں تو پھر عمل كيسے قبول ہو سكتا ہے ؟

اور اس كے بعد جو دعا كا ذكر ہوا ہے كہ حرام كے ساتھ دعا كيسے قبول ہو گى، يہ حرام خوراك كھا كر عمل قبول نہ ہونے كى مثال ہے ” انتہى

ديكھيں: جامع العلوم و الحكم ( 1 / 260 ).

اس ليے مسلمان شخص كو اللہ تعالى كا تقوى اور ڈر اختيار كرتے ہوئے اپنى كمائى اور كھانا اور پينا حلال كرنا چاہيے، اور وہ حلال لے اور حرام كو چھوڑ دے.

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android