آپ نے كہا تھا كہ كافر عورتوں كے ليے مسلمان عورت كو بغير پردہ كے ديكھنا جائز ہے، ليكن ميں مطمئن نہيں ہوئى، اس ليے كہ آپ نے عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے ايك حديث بھى ذكر كى ہے كہ وہ ايك يہودى عورت كے سامنے آئى تھيں.
برائے مہربانى آپ موضوع كى مزيد وضاحت كريں، كيونكہ ميرے سسرالى رشتہ دار كفار ہيں ؟
كافر عورت كا مسلمان عورت كو ديكھنے كے حكم كى مزيد وضاحت
سوال: 9934
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
سب تعريفات اللہ تعالى كے ليے ہيں، اور اللہ كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم پر درود و سلام كے بعد:
سوال كرنے والى آپ كى پردہ اور عزت و حشمت اور لباس كے متعلق، حتى كہ كافر عورتوں كے سامنے آنے كے متعلق آپ كى يہ حرص ايك ايسے دور ميں جہاں شرم و حياء كم ہو چكى ہے، اور غيرت نام كى چيز كمزور ہو كر رہ گئى ہے، يہ قابل ستائش ہے، اس پر آپ كا جتنا بھى شكر ادا كيا جائے كم ہے.
رہا يہ مسئلہ كہ كافر عورت كا مسلمان عورت كى جانب ديكھنا اور مسلمان عورت كا اس كے سامنے وہ كچھ ظاہر كرنا جو عادتا ظاہر ہوتا ہے، اس مسئلہ ميں پہلے اور آج كے علماء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے، آپ كواس مسئلہ ميں علماء كرام كے اقوال كا خلاصہ اور ہر قول كى دليل سوال نمبر (2198 ) كے جواب ميں ملے گى آپ ا سكا مطالعہ كريں، اور آپ يہ ملاحظہ كرينگى كہ جس نے كافر عورت كا بغير پردہ كے مسلمان عورت كو ديكھنا جائز كہا ہے اس كے پاس اس كى ايك سے زائد دليل ہے.
ليكن يہاں ايك چيز كى طرف اشارہ كرنا ضرورى ہے وہ درج ذيل ہے:
1 – بلا شبہ سچے مومن كو جب كسى مسئلہ ميں كوئى ايك شرعى دليل مل جائے جو اس مسئلہ پر ظاہرى اور واضح دلالت كرتى ہو تو اس كے ليے اس دليل پر عمل كرنا لازم ہو جاتا ہے، اور اس پر عمل كے ليے دو يا اس سے زيادہ دليلوں كا ہونا ضرورى نہيں ہوتا.
2 – يہ كہ جب كافر عورت امن والى نہ ہو اور اس سے خدشہ ہو كہ وہ مسلمان عورت كا وصف بيان كرتى پھرےگى، يا پھر اس كى عزت كے ساتھ كھيلےگى تو پھر مسلمان عورت كو اس سے احتراز كرتے ہوئے پردہ كرنا چاہيے، يا پھر اس جيسى عورت كے ساتھ اٹھنے بيٹھنے سے اجتناب كرے.
3 – كافر عورتوں سے مسلمان عورت كا پردہ كرنے والا قول معتبر قول ہے، اور اس كى صحيح توجيح ہے، كئى ايك سلف رحمہ اللہ نے كافر عورت سے پردہ كرنے كا كہا ہے؛ اس ليے اگر مسلمان عورت اپنے دين كے ليے احتياط چاہتى اور اس قول پر عمل كرنا چاہتى ہے تو وہ اس پر عمل كر سكتى ہے، اسے حق حاصل ہے.
اس كے ورع و تقوى، اور شبھات سے دور رہنے كى حرص ركھنے كى بنا پر اس كے ليے خير كى اميد كى جائيگى، ليكن اس كے شايان شان يہ نہيں كہ جو اس كى مخالفت كرے وہ ا سكا انكار كرتى پھرے، كيونكہ علماء كرام كے مابين يہ اجتھادى مسئلہ ہے، اور خاص كر جب اس كافرہ عورت سے كوئى خطرہ نہ ہو.
4 – عورتوں كو چاہيے كہ وہ اپنے محرم مردوں يا مسلمان عورتوں كے سامنے بھى اپنے آپ كو ظاہر كرنے ميں وسعت نہ كريں، چہ جائيكہ كافر عورتوں كے سامنے، بلكہ وہى اعضاء ظاہر كريں جو عادتا ظاہر كيے جاتے ہيں، مثلا ہاتھ، گردن، بال، پنڈلياں، اور پھر ( شرم و حياء تو ايمان كا ايك حصہ ہے ) .
اور سوال نمبر (6596 ) كے جواب ميں اس كى مزيد وضاحت اور فائدہ ہے، آپ ا سكا مطالعہ ضرور كريں.
اللہ تعالى كو ہى زيادہ علم ہے، اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم پراپنى رحمتيں نازل فرمائے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الشیخ محمد صالح المنجد
متعلقہ جوابات