0 / 0
20,78827/02/2008

پردہ كى ممانعت ہو تو عورت كام اور ضروريات پورى كرنے كے ليے كيسے جائے

سوال: 93145

ميرا سوال پردہ كے متعلق ہے، ہمارے ملك ميں پردہ كرنے كى ممانعت ہے، اور عورت كے ساتھ بہت برا سلوك كيا جاتا ہے، اس پر مستزاد يہ كہ عورت كے ليے ملازمت منع ہے، اور وہ كئى ايك جگہوں مثلا پوليس اسٹيشن …. ميں پردہ اتارے بغير داخل نہيں ہو سكتى، اور خاص كر جب ہمارى ضروريات پورى كرتے وقت اور ملازمت ميں بھى پردہ اتارنا پڑتا ہے ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اول:

عورت كا غير محرم اور اجنبى مردوں كے سامنے باپرد ہو كر آنا فرض ہے، يہ محكم فريضہ ہے جس پر كتاب و سنت اور اجماع دلالت كرتا ہے، لہذا كسى بھى شخص كے ليے اس كى مخالفت كرنى جائز نہيں، اور اس حكم پر عمل كرنے والى عورت كو بھى كوئى شخص منع كر سكتا ہے، جو شخص بھى ايسا كريگا وہ اللہ تعالى كے حكم كا مخالف ہے، اور اللہ كى شريعت كے خلاف جنگ كرنے ميں مشغول ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور ( ديكھو ) كسى بھى مومن مرد اور عورت كو اللہ تعالى اور اس كے رسول ( صلى اللہ عليہ وسلم ) كے فيصلہ كے بعد اپنے امر كا كوئى اختيار باقى نہيں رہتا، اور جو كوئى بھى اللہ تعالى اور اس كے رسول كى نافرمانى كريگا تو وہ واضح اور صريح گمراہى ميں پڑ گيا الاحزاب ( 36 ).

اور ايك دوسرے مقام پر اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان كچھ اس طرح ہے:

اور جو كوئى بھى رسول ( صلى اللہ عليہ وسلم ) كى مخالفت كريگا، اس كے بعد كہ اس كے ليے ہدايت واضح ہو چكى، اور وہ مسلمانوں كے علاوہ كسى اور كے طريقہ پر چلےگا ہم اسے اسى طرف پھير دينگے جس طرف وہ پھرا ہے، اور اسے جہنم ميں ڈال دينگے، اور يہ بہت ہى برى جگہ ہے النساء ( 115 ).

اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى كچھ اس طرح ہے:

سو اللہ كى قسم يہ مومن ہو ہى نہيں سكتے جب تك كہ وہ آپ كو اپنے مابين ہونے والے اختلاف ميں فيصل نہ مان ليں، اور پھر آپ كے فيصلہ كے متعلق اپنے نفس ميں كوئى تنگى محسوس نہ كريں، اور اسے مكمل تسليم نہ كر ليں النساء ( 65 ).

دوم:

كسى بھى عورت كے ليے اس فرض كى ادائيگى ميں كوتاہى كرنا جائز نہيں، اور نہ ہى اس كے ليے اپنے بدن كا كوئى حصہ ظاہر كر كے گھر سے باہر نكلنا جائز ہے، ليكن اگر كوئى ايسى مجبورى ہو اور اضطرارى حالت ہو جو حرام كو مباح كر دے مثلا اسے پوليس اسٹيشن طلب كيا جائے، اور اس كے ليے وہاں جائے بغير كوئى چارہ نہ ہو، اگر نہ جائے تو اس كے نتيجہ ميں اس كى جان يا مال ميں كوئى معتبر خرابى پيدا ہو تو پھر ايسا ہو سكتا ہے.

ليكن عورت كا ملازمت كے گھر سے نكلنے ميں عرض يہ ہے كہ اگر اس كا خرچ اور نان و نفقہ برداشت كرنے ولا يعنى والد يا خاوند يا جس پر اس كا نان و نفقہ واجب ہوتا ہے موجود ہو يہ عورت ملازمت كے ليے باہر نكلنے پر مضطر نہيں، لہذا اگر ملازمت پر جانے كے ليے پردہ اتارنا پڑتا ہو تو اس كا ملازمت كرنا جائز نہيں.

مسلمانوں كو چاہيے كہ وہ اس سلسلہ ميں ايك دوسرے كا تعاون كريں، اور مسلمان عورتوں كو اس طرح باہر نكلنے پر مجبور ہونے سے بچائيں جو معصيت و نافرمانى پر مشتمل ہو، اور يہ اس طرح ہو سكتا ہے كہ ماں باپ اور رشتہ دار ان پر خرچ كريں، اور ان عورتوں كے ليے گھروں ميں بھى كچھ ايسے مفيد عمل پيدا كريں جو عورتيں گھروں ميں ہى رہ كر سرانجام ديں، اور انہيں گھر سے باہر نكلنے سے مستغنى كر ديں جس كے نتيجہ ميں انہيں اپنا پردہ اتارنا پڑے، اور پردہ كرنے سے انہيں باہر نكل كر اذيت كا سامنا كرنا پڑے.

اور يہ آدمى كے پردہ كو فرض سمجھنے پر موقوف ہے يعنى آدمى پردہ كى فرضيت كا قائل ہو تو پھر ايسا ہو سكتا ہے، وگرنہ اكثر لوگ تو اس كى پرواہ ہى نہيں كرتے كہ پردہ بھى كروانا ہے، اور نہ ہى پردہ كروانے كا اہتمام كرتے ہيں، اور كچھ تو ايسے بھى ہيں جو اپنى بيوى اور بيٹى كو ملازمت كروانے كى حرص ركھتے ہيں، اور كچھ ايسے بھى ہيں جو ملازمت كرنے والى عورت كے علاوہ كسى اور سے شادى نہيں كرتے، چاہے اس كى ملازمت پردہ نہ كرنے كى متقاضى ہو.

مردوں كى يہ كوتاہى اور جہالت اس مشكل كو حل كرنے ميں مانع اسباب ميں سب سے بڑا سبب ہے، اس ليے اس علم يعنى پردہ كى فرضيت كو نشر كرنے اور اس كى ياد دہانى كى كوشش، اور اس كى تربيت دينى چاہيے، تا كہ ہر شخص اپنے اہل و عيال كى عفت و عصمت كو محفوظ بنا سكے، اور اسے يہ علم ہونا چاہيے كہ كل روز قيامت اس نے اپنے اہل و عيال كے متعلق اللہ عزوجل كو جواب دينا ہے كہ آيا اس نے يہ امانت پورى طرح ادا كى تھى يا كہ اس ميں كوتاہى كى ؟

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

” اللہ تعالى جس بندے كو بھى كسى رعايا كا ذمہ دار اور حاكم بنائے تو وہ انہيں نصيحت و خير خواہى نہ كرے تو وہ جنت كى خوشبو بھى نہيں پائيگا ”

صحيح بخارى حديث نمبر ( 7150 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 142 ).

بلكہ مسلمانوں پر متعين ہے كہ وہ اس برائى كو زائل كرنے كى كوشش كريں، اور اس سلسلہ ميں جتنے بھى وسائل ہيں انہيں بروئےكار لائيں، چاہے وہ كميٹيوں اور مجلس اور اداروں كى جانب سے ہوں يا كسى اور جانب سے تا كہ اس فتنہ اور خرابى كو اپنى عورتوں سے ختم كر سكيں، اور ہر مسلمان عورت پردہ كر سكے، اور اس فرض كى ادائيگى ميں نااميدى وغيرہ نہيں ہونى چاہيے، كيونكہ بہت سے حقوق صبر اور كوشش سے حاصل ہو جاتے ہيں.

سوم:

جس پر سب راہ بند ہو جائيں، اور اس عورت كے ليے ملازمت كرنے كے سوا كوئى چارہ نہ ہو، اور اس كا نان و نفقہ اور خرچ برداشت كرنے والا بھى كوئى نہ ہو، اور اس كے ليے اسے پردہ اتارنے پر مجبور ہونا پڑے تو اس كے متعلق عرض يہ ہے كہ اگر تو وہ عورت اس علاقے اور ملك و شہر كو جہاں اس كے ليے اپنے دين كا ظاہر كرنا ممكن نہ ہو، اور اپنے پروردگار كے حكم پر عمل نہ كر سكتى ہو، چھوڑنا اور ہجرت كرنا ممكن ہو تو يہ اس پر واجب ہے.

ابن عربى رحمہ اللہ نے ” احكام القرآن ” ميں ذكر كيا ہے كہ:

” دار الكفر سے دالاسلام كى جانب ہجرت كرنا فرض ہے.

اور اس جگہ سے بھى ہجرت كرنى فرض ہے جہاں بدعت عام ہو چكى اور پھيل چكى ہو، امام مالك رحمہ اللہ كہتے ہيں: كسى شخص كے ليے بھى ايسے علاقے ميں رہنا حلال نہيں جہاں سلف پر سب و شتم كيا جاتا ہو ”

” اور اس جگہ اور علاقے سے بھى جہاں حرام غالب ہو، كيونكہ ہر مسلمان شخص پر حلال كى تلاش فرض ہے ”

ديكھيں: احكام القرآن ( 1 / 612 ).

اور بعض اوقات ہر كوئى ہجرت كرنے كى استطاعت نہيں ركھتا، اور نہ ہى يہ سب مسلمان عورتوں كے ليے حل ہو سكتا.

اس ليے جس عورت كو گھر سے نكلنے كى اشد ضرورت ہو، يا پھر اسے كچھ معاملات وغيرہ نپٹانے ہوں اور اس ميں باہر نكلنے كے ليے صرف چہرہ ننگا كرنے كى ضرورت ہو، تو ہم اميد كرتے ہيں كہ اس ميں كوئى حرج نہيں.

ليكن واجب ضرورى يہى ہے كہ اس مسئلہ اور مشكل كو مكمل حل كرنے كے ليے پورى تندہى سے كوشش كرنى چاہيے، جيسا كہ اوپر بيان ہو چكا ہے، اور وہ اس طرح كہ بعض ذمہ داران كو پند و نصائح كر كے، اور اس دين اور شخص حق كا مطالبہ كر كے اسے حل كيا جائے.

اور مبلغين اور اہل علم كو چاہيے كہ وہ لوگوں كے سامنے پردہ كى فرضيت بيان كريں، كہ يہ مسلمان عورتوں پر اللہ سبحانہ و تعالى كى جانب سے محكم فرض ہے.

تعجب والى بات تو يہ ہے كہ ہم ديكھتے ہيں كہ يہ لڑائى اور جنگ اس پردہ كے خلاف ہے، جو عفت و عصمت اور طہارت و پاكيزگى كى علامت تھى، اور اس وقت جبكہ پردہ كے خلاف جنگ جارى ہے، اسى دوران ہم ديكھتے ہيں كہ بےپرد اور فاحشہ اور بازارى عورتوں كے ليے دروازے كھولے جا رہے ہيں.

لہذا مومن عورتوں سے گزارش ہے كہ وہ صبر كريں، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا مال بہت مہنگا ہے، اور وہ دن آنے والا ہے جب اللہ تعالى كا دين باقى سب اديان پر غالب ہو كر رہےگا.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اللہ وہ ذات ہے جس نے اپنے رسول كو ہدايت اور دين حق دے كر بھيجا تا كہ وہ اسے باقى اديانوں غالب كر دے، چاہے مشرك لوگ اسے برا ہى جانيں التوبۃ ( 33 ).

اور اللہ سبحانہ و تعالى اپنے معاملہ كو پورا كرنے والا ہے، ليكن اكثر لوگ نہيں جانتے.

اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ اس امت كو رشد و ہدايت نصيب فرمائے جس ميں اطاعت و فرمانبردارى كرنے والوں كو مزيد عزت حاصل ہو، معصيت و نافرمانى كرنے والے ذليل و رسوا ہوں، اور آپ اور باقى سب مسلمان عورتوں كو پردے كا اہتمام كرنے كى توفيق دے، اور بےپردگى اور فحاشى سے محفوظ ركھے.

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android