0 / 0

قبر پرستوں كے جنازہ ميں شركت كرنا

سوال: 7867

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
نبى صلى اللہ عليہ وسلم اور مومنوں كو زيب نہيں ديتا كہ وہ مشركوں كے ليے دعائے استغفار كريں، چاہے وہ ان كے عزيز و اقارب ہى كيوں نہ ہوں، بعد اس كے ان كے ليے يہ ظاہر ہو چكا ہے كہ وہ جہنمى ہيں .
مندرجہ بالا آيت كا ظاہر مشركوں كے ليے استغفار كرنے سے منع كر رہا ہے چاہے وہ اپنے قريبى عزيز اور رشتہ دار ہى كيوں نہ ہوں، ہم ديہاتى لوگوں ميں سے بہت سے لوگوں كے والدين اور اقرباء كو قبروں كے پاس ذبح كرنے اور قبروں والوں كو وسيلہ بنانے اور انہيں نذر و نياز دينے اور مصيبت كے وقت قبر والوں سے تكليف دور كرنے كى درخواست كرنے كى عادت ہے، اور اپنے بيماروں كى شفايابى كے ليے بھى وہيں جاتے ہيں، اور ان كى موت بھى اسى حالت ميں ہوئى ہے، ان تك كوئى نہيں پہنچا جو انہيں توحيد كا معنى اور كلمہ لا الہ الا اللہ كا مقصد اور معنى بتائے، اور ان تك كوئى نہيں پہنچا جو انہيں يہ بتائے كہ نذرونياز اور دعاء و عبادت صرف اللہ وحدہ لا شريك كے ليے ہے كسى اور كے ليے نہيں، تو كيا ايسے لوگوں كے جنازے ميں شركت كى جا سكتى ہے، اور ان كى نماز جنازہ ادا كرنى جائز ہے، اور كيا ان كے ليے دعا اور استغفار اور ان كى طرف سے حج اور صدقہ كيا جا سكتا ہے ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

جو شخص بھى بيان كردہ اوصاف اور حالت پر فوت ہوا ہو اس كے جنازہ ميں شريك ہونا اور اس كى نماز جنازہ ادا كرنا جائز نہيں، اور نہ ہى اس كے دعا اور استغفار كى جا سكتى ہے، اور نہ اس كى جانب سے حج اور صدقہ كيا جا سكتا ہے؛ كيونكہ اس كے مذكورہ اعمال شركيہ اعمال ہيں، اور سابقہ آيت ميں اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

نبى صلى اللہ عليہ وسلم اور مومنوں كے شايان شان نہيں كہ وہ مشركوں كے ليے دعائے استغفار كريں، چاہے وہ ان كے قريبى عزيز ہى كيوں نہ ہوں التوبۃ ( 113 ).

اور اس ليے بھى كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ انہوں نے فرمايا:

" ميں نے اپنے رب سے اپنى والدہ كى استغفار كے ليے دعا كرنے كى اجازت طلب كى تو مجھے اجازت نہ ملى، اور ميں نے اس كى قبر كى زيارت كرنے كى اجازت طلب كى تو مجھے اجازت دے دى گئى "

مسند احمد ( 2 / 441 ) ( 5 / 355 ) صحيح مسلم ( 2 / 671 ) حديث نمبر ( 976 ) سنن ابو داود ( 3 / 557 ) حديث نمبر ( 3234 ) سنن نسائى ( 4 / 90 ) حديث نمبر ( 2034 ) سنن ابن ماجۃ ( 1 / 501 ) حديث نمبر ( 1572 ) ابن ابى شيبۃ ( 3 / 343 ) ابن حبان ( 7 / 440 ) حديث نمبر ( 3169 ) مستدرك الحاكم ( 1 / 375 – 376 ) البيھقى ( 4 / 76 ).

اور جو كچھ كہا گيا ہے وہ اس بنا پر معذور نہيں: كہ ان كے پاس كوئى ايسا شخص نہيں آيا جو انہيں يہ بتائے كہ جن امور كے وہ مرتكب ہو رہے ہيں وہ شرك ہے، اس ليے كہ قرآن مجيد كے دلائل واضح ہيں، اور ان كے مابين اہل علم موجود ہيں، لھذا جس شرك پر وہ ہيں اس كے متعلق ان كے ليے سوال كرنا ممكن ہے، ليكن انہوں نے سوال كرنے سے اعراض كيا اور اپنے اعمال پر راضى رہے.

اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے، اور اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور ان كے صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے.

ماخذ

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 9 / 12 )

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android