0 / 0
5,35002/02/2007

حديث: ” جو كسى قوم كو ملنے جائے تو وہ ان كى امامت مت كرائے ” سے كيا مراد ہے ؟

سوال: 72234

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مہمان كو مقيم لوگوں كى امامت كروانے سے منع فرمايا ہے، بلكہ مقيم حضرات ميں سے كوئى شخص جماعت كروائے، اس كا مرجع مالك بن حويرث رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث ہے جو ترمذى اور ابو داود كى روايت كردہ ہے، اس حديث ( جيسا مجھے ظاہر ہوتا ہے نص ہے ) پر ہمارى مساجد ميں عمل نہيں ہوتا كہ جب كوئى خطيب كسى مسجد ميں آئے تو اس مسجد امام دوسرے سے امام كروانے كا كہتا ہے، اور مہمان بھى جماعت كرو ديتا ہے، اور خطباء حضرات اس عمل كى تائيد ميں اس حديث سے اشتشھاد ليتے ہيں جس ميں ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فتح مكہ كے موقع پر مكہ ميں نمازوں كى امامت كروائى حالانكہ آپ وہاں زائر تھے.
گزارش ہے كہ آپ وضاحت فرمائيں، تا كہ علمى فائدہ ہو سكے، اور اس موضوع كے متعلق ميں دوسروں كى راہنمائى بھى كر سكوں ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

سوال ميں مالك بن حويرث رضى اللہ تعالى عنہ كى جس حديث كى طرف اشارہ كيا گيا ہے وہ ترمذى اور ابو داود نے ابوعطيہ سے روايت كى ہے ابو عطيہ بيان كرتے ہيں كہ ہمارے پاس مالك بن حويرث رضى اللہ تعالى عنہ بات چيت كے ليے ہمارى نماز گاہ ميں تشريف لايا كرتے تھے، ايك روز نماز كا وقت ہو گيا تو ہم نے ان سے عرض كيا: آگے بڑھيے، تو وہ فرمانے لگے: تم ميں سے كوئى آگے بڑھے، ميں تمہيں حديث بيان كرونگا كہ ميں آگے كيوں نہيں بڑھ رہا:

ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتے ہوئے سنا:

" جو شخص كسى قوم كى زيارت كرے تو وہ ان كى امامت مت كروائے اور ان ميں سے كسى ايك شخص كو ان كى امامت كروانى چاہيے "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 356 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 596 ).

ابو عيسى ترمذى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: يہ حديث حسن صحيح ہے اور صحابہ كرام وغيرہ ميں سے اكثر اہل كا عمل بھى اسى پر ہے، ان كا كہنا ہے كہ زائر كى بنسبت گھر والا امامت كا زيادہ حقدار ہے.

اور بعض اہل علم كا كہنا ہے كہ: اگر وہ اسے اجازت دے دے تو پھر نماز پڑھانے ميں كوئى حرج نہيں.

مالك بن حويرث رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث بلكہ اس ميں اور بھى شدت سے كام ليتے ہوئے اسحاق رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں كہ كوئى بھى كسى گھر والے كى امامت نہ كروائے چاہے وہ اسےامامت كى اجازت بھى دے دے، ان كا كہنا ہے: اسى طرح جب وہ مسجد ميں لوگوں سے ملنے اور زيارت كے ليے جائے تو وہ ان كى امامت مت كروائے، وہ كہتے ہيں: ان ميں سے كوئى ايك شخص جماعت كروائے. انتہى

ديكھيں: سنن ترمذى.

اس حديث كے متعلق علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: مالك رضى اللہ تعالى عنہ كے قصہ كے علاوہ باقى حديث صحيح ہے.

ديكھيں: صحيح سنن ترمذى.

سنت سے ثابت ہے كہ ملنے اور زيارت كے ليے جانے والا شخص گھر والوں كى اجازت سے امامت كروا سكتا ہے.

امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے ابو مسعود انصارى رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" كوئى شخص كسى دوسرے كى سلطنت ميں امامت مت كروائے، اور اس كے گھر ميں اس كے بستر اور مسند پر اس كى اجازت كے بغير مت بيٹھے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 673 ).

امام نووى رحمہ اللہ تعالى اس حديث كى شرح ميں كہتے ہيں:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان:

" كوئى شخص كسى كى سلطنت ميں امامت مت كروائے "

اس كا معنى يہ ہے كہ: ہمارے اصحاب وغيرہ نے جو بيان كيا ہے كہ: گھر والا، اور مسند والا، اور مسجد كا امام كسى دوسرے سے زيادہ حقدار ہے، اگرچہ دوسرا شخص اس سے زيادہ فقيہ اور قارى، يا تقوى اور ورع ميں زيادہ افضل ہو اور جگہ والا زيادہ حقدار ہے، چاہے تو وہ آگے بڑھ جائے اور چاہے كسى اور كو آگے كر دے، چاہے آگے كيا جانے والا شخص حاضرين ميں سے كم فضيلت والا ہى كيوں نہ ہو، كيونكہ امام وہ ہے جو چاہے تصرف كرے.

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان:

" اور وہ اس كے گھر ميں اس كى عزت والى مسند پر اس كى اجازت كے بغير مت بيٹھے "

علماء كرام كا كہنا ہے كہ: تكرمہ سے مراد بستر وغيرہ ہے، جو گھر والے كے ليے مسند وغيرہ بچھائى جاتى ہے اور وہ اس كے ليے خاص ہوتا ہے" انتہى مختصرا

امام شوكانى رحمہ اللہ تعالى مالك بن حويرث رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث كى شرح كرتے ہوئے كہتے ہيں:

اكثر اہل علم كا كہنا ہے كہ: زائر كى امامت كرانے ميں كوئى حرج نہيں وہ مقيم حضرات كا امام بن سكتا ہے، ليكن اس جگہ والے كى اجازت كے بغير نہيں بلكہ اس كى اجازت سے، كيونكہ ابو مسعود رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" مگر اس كى اجازت سے " انتہى

ماخوذ از نيل الاوطار ( 3 / 170 ).

مہمان يا زائر كا گھر والے اور مقيم كى امامت كروانے كے جواز پر درج ذيل بخارى اور مسلم كى حديث بھى دلالت كرتى ہے:

عتبان بن مالك رضى اللہ تعالى بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ان كے گھر تشريف لائے اور فرمانے لگے:

آپ اپنے گھر كى كونسى جگہ پسند كرتے ہيں ميں وہاں نماز پڑھتا ہوں، چنانچہ ميں نے ايك جگہ كى طرف اشارہ كيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تكبير كہى اور ہم نے ان كے پيچھے صف بنائى تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں دو ركعت نماز پڑھائى"

صحيح بخارى حديث نمبر ( 424 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 33 ).

مسافر كے ليے مقيم كى امامت كرانا جائز ہے، اس كى دليل ترمذى كى درج ذيل حديث ہے:

ابو نضرۃ بيان كرتے ہيں كہ عمران بن حصين رضى اللہ تعالى عنہ سے مسافر كى نماز كے متعلق دريافت كيا گيا تو انہوں نے فرمايا:

" ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ حج كيا چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے دو ركعت نماز پڑھائى، اور ميں نے ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ سے ساتھ حج كيا تو انہوں نے بھى دو ركعت نماز پڑھائى، اور عمر رضى اللہ تعالى عنہ كے ساتھ حج كيا انہوں نے بھى دو ركعت ہى پڑھائى، اور عثمان رضى اللہ تعالى عنہ كے ساتھ بھى كيا تو انہوں نے اپنى خلافت كے چھ يا آٹھ برس تك دو ركعت پڑھائى "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 545 ).

علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے اس حديث كو صحيح لغيرہ كہا ہے.

امام مالك رحمہ اللہ تعالى نے موطا ميں عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ جب وہ مكہ تشريف لاتے اورانہيں دو ركعت نماز پڑھاتے اور پھر فرماتے:

" اے اہل مكہ اپنى نماز مكمل كر لو، كيونكہ ہم مسافر ہيں "

موطا امام مالك حديث نمبر ( 349 ).

اور ابو داود رحمہ اللہ تعالى نے ضعيف سند كے ساتھ نبى صلى اللہ عليہ وسلم تك مرفوع بيان كيا ہے، جسے علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے سنن ابو داود ميں ضعيف قرار ديا ہے.

ديكھيں: سنن ابو داود حديث نمبر ( 1229 ).

ليكن مندرجہ بالا عمران بن حصين رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث اس سے مستغنى كر ديتى كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنے سفر كے حج ميں دو ركعتيں ادا كيا كرتے تھے, اور اہل مكہ بھى رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ان كے پيچھے نماز ادا كرتے اور بلا شك اپنى چار ركعت اٹھ كر مكمل كرتے تھے.

شوكانى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

عمر رضى اللہ تعالى كے اثر كى سند كے رجال ثقہ ہيں. انتہى

ديكھيں: نيل الاوطار ( 3 / 177 ).

ان سب احاديث سے حاصل يہ ہوا كہ: گھر والا اور مسجد كا امام كسى دوسرے كى بجائے خود امامت كا زيادہ حقدار ہے، اور اگر وہ مسافر يا مہمان كو نماز پڑھانے كى اجازت دے دے تو اسے يہ حق حاصل ہے.

شيخ محمد بن ابراہيم رحمہ اللہ تعالى سے دريافت كيا گيا:

درج ذيل احاديث:

" كوئى بھى شخص كسى كى سلطنت ( امامت ) ميں اس كى اجازت كے بغير امامت نہ كروائے، اور نہ ہى اس كى اجازت كے بغير اس كى مسند پر بيٹھے "

اور يہ حديث:

"جو كسى قوم كى زيارت كرے تو وہ ان كى امامت نہ كرے"

ان كے درميان جمع كيا ہے:

شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:

" اسے بغير اجازت امامت كروانے پر محمول كيا جائيگا، يا پھر جمع اس طرح ہے كہ اولى اور بہتر يہ ہے كہ وہ اسے چھوڑ دے چاہے اسے اجازت بھى دى جائے, اور كلمہ: " اس كى اجازت سے " يہ جواز پر دلالت كرتا ہے" انتہى

ديكھيں: فتاوى و رسائل الشيخ محمد بن ابراہيم ( 2 / 285 ).

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android