0 / 0

صحيح اور ضعيف حديث ميں علماء كے اختلاف ميں عام مسلمان كيا كرے ؟

سوال: 70455

اگر عبادت كے متعلق كسى حديث كے صحيح يا ضعيف ہونے ميں علماء كا اختلاف ہو تو ہميں كيا كرنا چاہيے ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اول:

پہلى بات تو يہ ہے كہ حديث كے صحيح يا ضعيف ہونے ميں اختلاف اور فقھى مسائل ميں علماء كے اختلاف ميں اہل علم كے ہاں كوئى فرق نہيں؛ اس ليے كہ حديث كو صحيح يا ضعيف قرار دينا اجتھاد كے تابع ہے، اور اس سلسلہ ميں علم رجال اور طرق حديث كے متعلق علماء كرام ايك دوسرے سے فرق ركھتے ہيں كسى كے پاس اس كا علم كم ہے اور كسى كے پاس زيادہ، بعض علماء كسى راوى كے حالات كا علم ركھتے ہيں تو كسى عالم پر اس كے حالات مخفى رہتے ہيں، اور كوئى دوسرا عالم اس حديث كے شواہد اور متابعات كا علم ركھتا ہے ليكن كسى دوسرے كے ليے يہ طرق اور متابعات ميسر نہيں ہوتے، تو اس طرح ان كا ايك ہى حديث پر حكم مختلف ہو جاتا ہے.

اور بعض اوقات ہر ايك راوى كے حالات اور حديث كے طرق سے واقف ہو جاتا ہے، ليكن راوى كے حالات ميں راجح كے متعلق اجتھاد كرتے ہوئے حديث كو صحيح اور ضعيف ميں ترجيح ديتے وقت ان ميں اختلاف ہو جاتا ہے، اور اسى طرح طرق حديث كا شذوذ اور علت سے خالى ہونے ميں ترجيح كے اعتبار سے بھى اختلاف ہو جاتا ہے.

امام ترمذى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

اہل علم ميں سے آئمہ رجال كا رجال كے ضعف ميں اختلاف ہے جس طرح ان كا باقى علم ميں اختلاف ہے ”

ديكھيں: سنن ترمذى ( 5 / 756 ) ترمذى كے آخر ميں علل ترمذى ميں يہ كلام درج ہے.

اور علماء كرام كے اختلاف كے اسباب بيان كرتے ہوئے شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

” تيسرا سبب:

اجتھاد كے ساتھ كسى حديث كے ضعيف ہونے كا اعتقاد ركھنا جس ميں ہو سكتا ہے دوسرے كى مخالفت ہو، قطع نظر دوسرے طريق كے، چاہے وہ صحيح ہو يا كوئى دوسرا عالم دين، يا جو يہ كہتا ہے كہ ہر مجتھد صحيح اجتھاد كرتا ہے تو اس طرح دونوں ہى صحيح ہوں؛ اور يہ كئى ايك اسباب كى بنا پر ہو سكتا ہے جس ميں سے ايك سبب يہ بھى ہے:

حديث بيان كرنے والا يہ اعتقاد ركھتا ہو كہ ان ميں سے ايك ضعيف ہے؛ اور دوسرا اسے ثقہ سمجھتا ہو، علم رجال كى معرفت ايك وسيع علم ہے؛ پھر بعض اوقات جرح كے اسباب پر مطلع ہونے كى بنا پر اسے ضعيف كہنے والا بعض اوقات درست ہو سكتا ہے، اور بعض اوقات غير جارح سبب كا علم ہونے كى بنا پر كوئى دوسرا بھى صحيح ہو سكتا ہے؛ يا تو اس ليے كہ اس كى جنس غير جارح ہے، يا پھر اس ليے كہ اس ميں كوئى ايسا عذر ہے جو جرح ميں مانع ہو.

يہ موضوع بہت وسيع ہے، علم رجال كے علماء اور رجال كے احوال اجماع ميں سے ہے، اور اس ميں اختلاف بالكل اسى طرح ہے جس طرح باقى علوم ميں اہل علم كا اختلاف ہے.

اور اس ميں سبب يہ بھى ہے: يہ اعتقاد ہو كہ حديث بيان كرنے والے نے اس سے حديث سنى ہى نہيں جس سے وہ بيان كر رہا ہے، ليكن اس كے علاوہ دوسرے كا اعتقاد ہو كہ اس نے واجب كرنے والے معروف اسباب كى بنا پر وہ حديث سنى ہے.

اور يہ سبب بھى ہے: محدث يعنى حديث بيان كرنے والے كے دو حال ہوں، ايك تو استقامت والا حال، اور دوسرا اضطراب والا حال، مثلا: اسے اختلاط ہو گيا ہو يا پھر اس كى كتب جل گئى ہوں، اس طرح اس نے استقامت يعنى صحيح حالت ميں جو احاديث بيان كى ہيں وہ صحيح ہيں، اور جو احاديث اس نے اضطراب كى حالت ميں بيان كيں وہ ضعيف ہيں؛ چنانچہ ايك كو علم نہيں كہ اس نے جو احاديث بيان كى ہيں وہ كس نوع كى ہيں ليكن دوسرا علم ركھتا ہے كہ اس نے جو احاديث بيان كى ہيں وہ صحيح اور استقامت كى حالت ميں بيان كردہ ہيں.

اور اسباب ميں يہ بھى شامل ہے كہ: حديث بيان كرنے والا وہ حديث بھول چكا ہو اور بعد ميں اسے ياد نہ آئے، يا پھر وہ اس حديث سے ہى انكار كر دے كہ اس نے بيان كى تھى اور اعتقاد ركھتا ہو كہ يہ علت ترك حديث كو واجب كرتى ہے، ليكن دوسرا يہ رائے ركھتا ہو كہ اس سے استدلال كرنا صحيح ہے، يہ مسئلہ معروف ہے…… اس كے علاوہ بھى كئى ايك اسباب ہيں.

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 20 / 240 – 242 )مختصر.

دوم:

ايك ہى حديث كو صحيح اور ضعيف قرار دينے ميں اہل علم كے اختلاف ميں مسلمان كا موقف كيا ہونا چاہيے اس كے متعلق عرض يہ ہے كہ: اس ميں وہى موقف ہے گا جو بذاتہ فقہى اختلاف كے وقت ہوتا ہے، اگر تو وہ ان كے اقوال كے درميان ترجيح دينے كى اہليت ركھتا ہو تو دونوں حكموں ميں سے جو صحيح ديكھتا ہو اسے راجح قرار دے، اور اگر وہ اہليت نہيں ركھتا تو اسے تقليد واجب ہو گى.

اسے چاہيے كہ وہ اس كى ترجيح كو لے جسے وہ زيادہ دين والا اور اس سلسلہ ميں زيادہ علم والا ديكھتا ہو، وہ اس دھوكہ ميں نہ رہے كہ وہ اصولى ہے يا فقيہ يا مفسر ہے، بلكہ تصحيح اور تضعيف كے متعلق اس فن ميں ماہر علماء كا مقلد بنے اور ان كے فيصلے كو مانے، يعنى فن حديث كے علماء كے فيصلے پر چلے.

اس ميں تقليد كرنے ميں جو نتائج مرتب ہوں اس ميں كوئى حرج نہيں اگر اس كے نزديك وہ حديث صحيح ہو اور اس ميں وہ تقليد كر رہا ہو اور وہ فقھى حكم ضمن ميں لے تو اس پر عمل كرنا واجب ہے، اور اگر حديث ضعيف ہو تو اس پر عمل نہ كرنے ميں كوئى حرج نہيں.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

اگر علماء كرام فتوى ميں اختلاف كريں، يا جو وہ تقارير اور دروس سنتا ہے مثلا اس ميں اختلاف ہو تو وہ اس كى پيروى كرے جسے وہ اقرب الى الصواب اور زيادہ عالم اور دين ميں زيادہ سمجھتا ہو ”

ديكھيں: لقاء الباب المفتوح لقاء نمبر ( 46 ) سوال نمبر ( 1136 ).

مزيد آپ سوال نمبر (22652 ) كے جواب كا بھى مطالعہ ضرور كريں، اس ميں اختلاف علماء كے متعلق صحيح موقف بيان كيا گيا ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android