0 / 0
7,48307/12/2005

كيا فديہ بطور افطارى اولاد اور بيٹوں كو ديا جا سكتا ہے ؟

سوال: 66138

ميرى والدہ روزے نہيں ركھ سكتى، اس ليے ميں ان كى طرف سے ہر ماہ رمضان ميں فديہ ديتا ہوں، تو كيا يہ فديہ اس كى اولاد اور ان كے بيٹوں كو افطارى كى شكل ميں ديا جا سكتا ہے؟

يا كہ فديہ طلباء كى افطارى كے ليے دينا ہو گا؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اول:

بڑھاپے يا دائمى مرض جس سے شفايابى كى اميد نہ ہو كى بنا پر روزہ نہ ركھ سكے تو وہ روزہ نہ ركھے اور اس كے بدلے ايك مسكين كو كھانا دے؛ كيونكہ فرمان بارى تعالى ہے:

اور جو اس كى طاقت ركھتے ہوں وہ بطور فديہ ايك مسكين كو كھانا ديں البقرۃ ( 184 )

عبد اللہ بن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ: يہ آيت منسوخ نہيں بلكہ وہ بوڑھے مرد اور عورت كے ليے ہے جو روزہ ركھنے كى استطاعت نہ ركھتے ہوں، كہ وہ اس كے بدلے ہر دن ايك مسكين كو كھانا كھلائيں. صحيح بخارى حديث نمبر ( 4505 ).

اور وہ مريض جسے ايسى مرض لاحق ہو جس سے شفايابى كى اميد نہ ہو تو وہ بھى بوڑھے شخص كى طرح ہے جو روزہ نہ ركھ سكتا ہو.

ديكھيں: المغنى لابن قدامہ ( 4 / 396 ).

اس سے يہ معلوم ہوا كہ يہ فديہ ہر كسى كو نہيں ديا جا سكتا، بلكہ صرف مسكين كو ديا جائے گا.

لہذا اگر اس كى اولاد اور يا اولاد كى اولاد اور مذكورہ طلاب غنى ہيں اور فقراء نہيں تو انہيں كفارہ دينا جائز نہيں ہے.

دوم:

اور اولاد يا ان كے بيٹوں كو كفارہ دينا كے متعلق گزارش ہے كہ اہل علم نے اس مسئلہ ميں كفارہ كو زكاۃ كى طرح قرار ديا ہے، كہ جس كا نفقہ اس كے ذمہ ہے اسے كفارہ نہيں ديا جا سكتا.

اور ان جن كا نفقہ ان پر واجب ہے وہ اصل اور فرع ہے.

اصل يہ ہے: ماں باپ اور دادا، دادى.

اور فرع يہ ہے: بيٹے اور بيٹيا، اور ان كى اولاد.

ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

” دادے دادى اور اس سے بھى اوپر والوں ( يعنى آباء اجداد ) اور پوتا اور اس سے بھى نيچے والوں كا نفقہ واجب ہے، امام شافعى، ثورى اور اصحاب الرائے كا يہى كہنا ہے” انتہى

ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 11 / 374 )

اوراس بنا پر آپ مذكورہ كفارہ اولاد اور اولاد كى اولاد كو نہيں دے سكتے كيونكہ ( آپ كى ماں ) پر واجب ہے كہ ان پر خرچ كرے.

اور امام شافعى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

” قسم كا كفارہ كسى آزاد مسلمان اور محتاج كو دينے سے ادا ہو گا اگر كسى نے ذمى كافر اور محتاج كو كھانا ديا يا كسى غلام مسلمان غير محتاج كو تو اس كى قسم كا كفارہ ادا نہيں ہو گا، اور اس كا حكم ايسے ہى جيسے كسى نے كچھ بھى نہ كيا ہو، اور اسے دوبارہ كفارہ ادا كرنا ہو گا، اور اسى طرح اگر كسى نے ايسے شخص كو كفارہ دے ديا جس كا نفقہ اس كے ذمہ ہے، اور پھر اسے علم ہوا تو اسے كفارہ دوبارہ دينا ہوگا” انتہى باختصار

ديكھيں: كتاب الام للشافعى ( 7 / 68 ).

اور ” اسنى المطالب ” ميں ہے:

” مسكين اور فقير كے بارہ ميں يہ ہے كہ وہ زكاۃ لينے كے اہل ہوں، لہذا يہ كافر كو دينے سے ادا نہيں ہو گا…. اور نہ ہى اسے دينے سے جس كا نفقہ اس كے ذمہ لازم ہے…. كيونكہ كفارہ اللہ تعالى كا حق ہے، لہذا اس ميں انہوں نے زكاۃ والى صفات كو معتبر شمار كيا ہے” انتہى

ديكھيں: اسنى المطالب ( 3 / 369 ).

ليكن اگر ( آپ كى والدہ ) مال قليل ہونے كى بنا پر ان پر خرچ كرنے كى استطاعت نہيں ركھتى، تو اس كے ليے ان پر خرچ كرنا واجب نہيں، كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اللہ تعالى كسى بھى جان كو اس كى استطاعت سے زيادہ مكلف نہيں كرتا البقرۃ ( 286 ).

تو اس حالت ميں آپ كے ليے كفارہ انہيں دينا جائز ہو گا.

صحيح بخارى اور مسلم ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ آپ نے رمضان المبارك ميں روزے كى حالت ميں جماع كرلينے والے شخص كو كفارہ كى ادائيگى كے ليے كھجوريں ديں تو اس شخص نے كہا مدينہ ميں وہ سب سے زيادہ فقير اور محتاج ہے تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے فرمايا تھا:

” جاؤ اپنے گھر والوں كو جا كر كھلا دو ”

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى فتح البارى ميں كہتے ہيں:

” ابن دقيق رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: اس قصہ ميں مذاہب مختلف ہيں: ايك قول يہ ہے كہ: تنگ دست سے كفارہ كے سقوط پر دلالت كرتى ہے، كيونكہ كفارہ نہ تو اپنے آپ اور نہ ہى اہل وعيال كو ديا جا سكتا ہے.

اور جمہور علماء كا كہنا ہے كہ: تنگ دست سے كفارہ ساقط نہيں ہو گا اور جس شخص كو اس ميں تصرف كى اجازت دى گئى تھى وہ كفارہ ميں نہيں. ( بلكہ وہ تو صدقہ تھا جو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس شخص اور اس كے گھر والوں پر كيا تھا )

اور ايك قول يہ بھى ہے كہ: جب وہ اپنے اہل وعيال كے نان و نفقہ سے تنگ دست تھا تو اس كے ليے كفارہ ان پر صرف كرنا جائز ہوا، اور حديث سے بھى يہى ظاہر ہوتا ہے.

اور شيخ تقى الدين ( شيخ الاسلام ابن تيميہ ) كا كہنا ہے: اس سے بھى زيادہ قوى يہ ہے كہ وہ عطيہ شمار كيا جائے نہ كہ كفارہ، بلكہ وہ اس اور اس كے اہل و عيال پر صدقہ ہے، كيونكہ ان كى حاجت و ضرورت اس كى متقاضى تھى” انتہى مختصرا

تو اس سے حاصل يہ ہوا كہ جس كا نفقہ كفارہ دينے والے پر لازم ہوتا ہو تو وہ اسے كفارہ نہيں دے سكتا، اور اگر كفارہ دينے والا خود تنگ دست اور فقير ہو اور ان پر خرچ كرنے سے قاصر ہو تو بعض اہل علم كا كہنا ہے كہ اس حالت ميں انہيں كفارہ دينا جائز ہے.

اور سوال نمبر (20278 ) كے جواب ميں شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كا فتوى نقل ہو چكا ہے كہ اپنے قريبى رشتہ دار جن پر وہ اپنے فقر اور قلت مال كى بنا پر خرچ كرنے كى استطاعت نہيں ركھتا انہيں زكاۃ دينا جائز ہے.

اور ميں يہ بھى ہے كہ:

” ان رشتہ داروں كو زكاۃ دينا جو زكاۃ كے اہل ہوں غير رشتہ دار كو زكاۃ دينے سے افضل ہے، كيونكہ قريبى رشتہ پر صدقہ كرنا صدقہ اور صلہ رحمى ہے..

ليكن اگر ان رشتہ داروں كا تعلق ان افراد سے ہو جن كا خرچ اس كے ذمہ لازم ہے تو آپ انہيں زكاۃ ديں جو آپ كے مال كو ان پر خرچ كرنے سے بچائے تو ايسا كرنا جائز نہيں ہے.

ليكن اگر آپ كا مال اتنا نہيں كہ وہ انہيں پورا آتا ہو تو پھر اپنى زكاۃ ميں سے انہيں دينے ميں كوئى حرج نہيں” انتہى

خلاصہ يہ ہوا كہ:

جب ( آپ كى والدہ ) مالدار ہے، اور وہ ان پر خرچ كر سكتى ہے تو اس كے ليے انہيں زكاۃ دينى جائز نہيں، اور اگر وہ ان پر خرچ كرنے كى استطاعت نہيں ركھتى تو انہيں وہ كفارہ دے سكتى ہے.

سوم:

اور رہا مسئلہ يہ كہ وہ انہيں بطور افطارى دے تو اس ميں كوئى حرج نہيں، كيونكہ آيت ميں مطلقا ذكر ہے:

ايك مسكين كا كھانا فديہ ميں دے.

اميد ہے كہ ايسا كرنے سے اجروثواب ميں اضافہ كا باعث ہو گا، كيونكہ اس ميں روزے دار كى افطارى بھى ہے، ليكن اس ميں ايك شرط ہے كہ روزہ دار مسكين ہو، جيسا كہ اوپر بيان بھى ہو چكا ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

answer

متعلقہ جوابات

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android