0 / 0
8,80224/11/2008

اگر دو بيوياں ہوں تو كيا دو قربانياں كرنا ہونگى ؟

سوال: 45768

ميرى دو بيوياں ہيں اور ہر بيوى اپنے عليحدہ اورمستقل گھر ميں رہتى ہے، كيا ميرے ليے ايك ہى قربانى كرنا كافى ہو گى يا كہ مجھے دو قربانياں كرنا ہونگى ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

آپ كے ليے ايك ہى قربانى كرنا كافى ہے، سوال نمير ( 45916 ) كے جواب ميں بيان ہو چكا ہے كہ آدمى اور اس كے گھر والوں كى جانب سے ايك ہى قربانى كافى ہے، چاہے ان كى تعداد ايك سو ہى كيوں نہ ہو، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنى اور اپنى آل كى جانب سے ايك بكرى ذبح كى تھى، اور جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فوت ہوئے تو آپ كى نو بيوياں تھيں.

قرطبى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" كہيں بھى يہ منقول نہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنى ہر بيوى كو قربانى كرنے كا حكم ديا ہو، حالانكہ قربانى كے كئى سال تكرار كے ساتھ آتے رہے، اور پھر بيوياں بھى ايك سے زائد تھيں، اور اگر ايسا ہوتا تو عادت كے مطابق اسے بھى نقل كيا جاتا، جس طرح دوسرى جزئيات نقل كى گئى ہيں.

اور اس كى تائيد امام مالك، ابن ماجہ، ترمذى كى حديث سے بھى ہوتى ہے جسے ترمذى نے صحيح كہا ہے اور وہ حديث عطاء بن يسار كے طريق سے ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے ابو ايوب انصارى رضى اللہ تعالى عنہ سے دريافت كيا:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں قربانى كا كيا حساب تھا ؟

تو انہوں نے فرمايا: آدمى اپنى اور اپنے گھر والوں كى جانب سے ايك بكرى ذبح كرتا اوراسے خود بھى كھلاتا اور دوسروں كو بھى كھلاتا تھا " انتہى.

ماخوذ از: فتح البارى، اس حديث كو علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں صحيح كہا ہے.

امام بخارى رحمہ اللہ نے عبد اللہ بن ہشام رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے، انہوں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كےدور كو پايا اور انہيں ان كى والدہ زينب بنت حميد رضى اللہ تعالى عنہا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس لے كر گئيں اور كہنے لگيں اس سے بيعت ليں.

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے: يہ تو چھوٹا ہے، چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان كے سر پر ہاتھ پھيرا اور ان كے ليے دعا كى، اور وہ اپنے سب گھر والوں كى جانب سے ايك قربانى كيا كرتے تھے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 7210 ).

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

( اور وہ اپنى اور اپنے گھر والوں كى جانب سے ايك ہى قربانى كيا كرتے تھے ) يہ حديث ميں مذكور عبد اللہ بن ہشام ہيں " انتہى.

مستقل فتوى كميٹى سے درج ذيل سوال كيا گيا:

ميرے دو گھر ہيں جن ميں پندرہ كلو ميٹر كا فاصلہ ہے، اور ميں قربانى كرنا چاہتا ہوں، كيا ميں ہر گھر ميں عليحدہ قربانى كروں يا كہ ايك ہى گھر ميں قربانى كر لوں ؟

كميٹى كا جواب تھا:

" آپ كے ليے ايك ہى قربانى كافى ہے كيونكہ ان گھروالوں كا سربراہ ايك ہى ہے، اور اگر آپ دونوں گھروں ميں عليحدہ قربانى كرتے ہيں تو يہ افضل ہے " انتہى.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 11 / 407 ).

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android