0 / 0

كمر كے نچلے حصہ ميں شديد درد كا شادى ميں مانع ہونا

سوال: 43496

ميں اٹھائس برس كا جوان ہوں الحمد للہ ميرى ملازمت اور آمدنى اچھى ہے، ليكن ايك برس سے مجھے كمر كے نچلے حصہ ميں شديد درد رہتى ہے، ميرے والدين ميرى شادى كرنا چاہتے ہيں، ميں حيران ہوں آيا شادى كروں يا نہ كروں ؟
برائے مہربانى يہ بتائيں كہ اس ميں صحيح عمل كيا ہو گا آيا ميں شادى كے معاملات پورے كر لوں ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

آپ كو چاہيے كہ اپنا كسى سپيشلسٹ ڈاكٹر سے چيك اپ كرائيں، اگر يہ ثابت ہو جائے كہ يہ درد اولاد پيدا كرنے ميں يا پھر ازدواجى تعلقات قائم كرنے پر اثرانداز ہوتى ہے، يا پھر اس درد كى موجودگى ميں آمدنى اور ملازمت قوى طريقہ سے نہيں ہو سكتى تو آپ كے ليے ضرورى ہوگا كہ جس سے شادى كر رہے ہيں اس كو اپنى حالت واضح كريں.

اگر تو وہ اسے قبول كر ليتى ہے تو آپ كے ليے اس سے نكاح كرنے ميں كوئى حرج نہيں، اور جب آپ اس كو يہ بيان نہيں كرينگے تو آپ نے اسے دھوكہ ديا ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس نے بھى دھوكہ ديا اور فراڈ كيا وہ ہم ميں سے نہيں ہے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 102 ).

ہم نے جو بيان كيا ہے وہ اس راجح قول پر مبنى ہے كہ جس عيب سے بھى نكاح كا مقصد متاثر ہوتا ہو اس كو واضح كرنا واجب ہے، اور اس كو چھپانے كے بعد معلوم ہو جانے كى صورت ميں فسخ نكاح كا اختيار حاصل ہو جاتا ہے.

ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اور يہ قياس كہ: ہر وہ عيب جس سے خاوند يا بيوى متنفر ہوتا ہو اور اس سے نكاح كے مقاصد محبت و مودت جيسا مقصد حاصل نہ ہوتا ہو اس سے اختيار واجب ہو جاتا ہے "

ديكھيں: زاد المعاد ( 5 / 166 ).

اور ايك مقام پر لكھتے ہيں:

" جو كوئى بھى صحابہ كرام اور سلف كے فتاوى جات پر غور كريگا اسے يہ معلوم ہوگا كہ انہوں نے كسى عيب كو چھوڑ كر كسى عيب كو مخصوص نہيں كيا "

اور ان كا كہنا ہے:

" جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فروخت كرنے والے شخص پر اپنے سامان كے عيب كو چھپانا حرام كيا ہے، اور علم ہونے كے بعد خريدار سے عيب چھپانا حرام كيا ہے تو پھر نكاح ميں عيب كے متعلق كيا خيال.

اور پھر جب فاطمہ بنت قيس رضى اللہ تعالى عنہا نے معاويہ يا ابو جہم سے شادى كے بارہ ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے مشورہ كيا تو آپ نے اسے فرمايا تھا:

" رہا معاويہ تو وہ فقير اور تنگ دست ہے اس كے پاس مال نہيں، اور ابو جہم تو اپنے كندھے سے لاٹھى ہى نہيں ركھتا "

تو اس سے معلوم ہوا كہ نكاح ميں عيب اولى اور اوجب ہے، تو پھر اسے كس طرح چھپايا جا سكتا ہے اور اس ميں كيسے تدليس كى جا سكتى ہے، اور پھر اس سے شدت نفرت ہونے كے باوجود اسے كيسے گردن كا طوق بنايا جا سكتا ہے " انتہى

ديكھيں: زاد المعاد ( 5 / 168 ).

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" صحيح يہى ہے كہ ہر وہ عيب جس سے نكاح كا مقصد فوت ہوتا ہو وہ عيب شمار ہوتا ہے، اور بلاشك و شبہ نكاح كے مقاصد ميں فائدہ و خدمت اور اولاد پيدا كرنا اہم چيز شمار ہوتى ہے، اور يہ اہم ترين مقاصد ہيں، اس ليے جب ان مقاصد كے ليے كوئى مانع ہو تو وہ عيب شمار ہو گا.

اس بنا پر اگر بيوى خاوند كو بانجھ پائے، يا پھر خاوند اپنى بيوى كو بانجھ پائے تو يہ عيب شمار ہو گا " انتہى

ديكھيں: الشرح الممتع ( 5 / 274 ) طبع مركز فجر.

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android