دوبرس قبل ایک شخص حج کی طاقت رکھے بغیر فوت ہوگیا اوراب اس کا خاندان اوراولاد اس کی جانب سے حج کرنا چاہتے ہیں ، لیکن ان کے پاس اتنی رقم نہيں کہ وہ کسی ایک کوپاکستان سے فوت شدہ کی جانب سے حج کے لیے بھیج سکیں ، تواس لیے وہ یہ چاہتے ہیں کہ وہ مکہ میں رہائش پذیر کسی مسلمان کواس کا وکیل بنائيں اوراسے قربانی اورحج کے اخراجات دیں تا کہ وہ اس فوت شدہ کی جانب سے اس طرح حج کی ادائيگي کرے اورثواب بھی حاصل کرے ؟
0 / 0
6,25529/01/2005
وکیل کےمیقات کا اعتبار ہوگا
سوال: 36946
جواب کا متن
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
علماء کرام کا صحیح قول یہی ہے کہ کسی دوسرے کی طرف سے حج کرنے والے نائب کے میقات کا اعتبار کیا جائے گا کیونکہ وہ خود بنفس نفیس حج کررہا ہے ، اوراس میں جس کی جانب سے حج یا عمرہ کیا جارہا ہے اس کے میقات کا اعتبار نہيں کیا جائے گا ۔
تواس بنا پرآپ کے لیے جائز ہے کہ آپ اپنے والد کی جانب سے حج کے لیے اہل مکہ وغیرہ جوحرم کے قریب رہتے ہیں ان میں سے کسی ایک کووکیل بنادیں .
ماخذ:
دیکھیں : فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء ( 11 / 134 ) ۔