0 / 0
14,19724/10/2012

عيد ميں كى جانے والى غلطياں

سوال: 36856

عيدين ميں كونسى غلطياں اور خطائيں ہيں جن سے ہميں مسلمانوں كو بچنے كا كہنا چاہيے ؟
ہم بعض وہ تصرفات ديكھتے ہيں جو ہميں پسند نہيں، مثلا نماز عيد كے بعد قبرستان جانا، اور عيد كى رات كو عبادت كے ليے شب بيدارى كرنا.. ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

عيد آنے كى خوشى ميں بعض لوگ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت اور شريعت سے جھالت كى بنا پر كچھ امور اور تصرفات كرتے ہيں، جن پر تنبيہ كرنا ضرورى ہے، ان ميں كچھ امور درج ذيل ہيں:

1 – بعض لوگ عيد رات عبادت كے ليے شب بيدارى كرنا مشروع سمجھتے ہيں.

بعض لوگوں كا اعتقاد ہے كہ عيد كى رات عبادت كے ليے شب بيدارى كرنا مشروع ہے، يہ كام بدعات ميں شامل ہوتا ہے جو كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت نہيں، بلكہ اس كے متعلق ايك ضعيف روايت پيش كى جاتى ہے:

" جس نے عيد كى رات شب بيدارى كى دل مردے ہونے والے دن اس كا دل مردہ نہيں ہو گا "

يہ حديث صحيح نہيں، يہ دو طريق سے مروى ہے، ان ميں سے ايك طريق تو موضوع اور دوسرا بہت زيادہ ضعيف ہے.

ديكھيں: سلسلۃ الاحاديث الضعيفۃ والموضوعۃ للالبانى حديث نمبر ( 520 – 521 ).

لہذا عيد كى رات كو باقى راتوں ميں قيام كے ليے مخصوص كرنا مشروع نہيں، ليكن اگر كسى شخص كى ہر رات كو قيام كى عادت ہے اس كے ليے عيد كى رات بھى قيام كرنے ميں كوئى حرج نہيں.

2 – عيد الفطر اور عيد الاضحى كے روز قبرستان كى زيارت كرنا:

يہ تو عيد كے مقاصد خوشى و سرور اور اس كے شعار فرحت كے مناقض ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور سلف رحمہ اللہ كے طريقہ كے بھى مخالف ہے، كيونكہ يہ تو اس نہى ميں شامل ہوتا ہے، جس ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے قبروں كو ميلہ گاہ بنانے سے منع فرمايا ہے، كيونكہ كسى معين وقت اور معروف موسم ميں قبرستان جانا قبروں كو ميلہ گاہ بنانے كے معانى ميں شامل ہوتا ہے، اہل علم نے يہى بيان كيا ہے.

ديكھيں: احكام الجنائز و بدعھا للالبانى صفحہ ( 219 – 258 ).

3 – باجماعت نماز ادا نہ كرنا، اور نمازوں كے وقت سوئے رہنا:

بہت افسوس كى بات ہے كہ آپ كچھ مسلمانوں كو عيد كے روز سو كر نماز ضائع كرتے ہوئے ديكھيں گے، وہ سو كر نماز باجماعت تك ترك كر ديتے ہيں، حالانكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" ہمارے اور ان ( مشركوں ) كے مابين حد فاصل اور معاہدہ نماز ہے، لہذا جو شخص بھى نماز ترك كرتا ہے اس نے كفر كيا "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 2621 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 463 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور ايك حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" منافقين كے ليے سب سے مشكل اور بھارى نماز عشاء اور فجر كى نماز ہے، اگر انہيں علم ہو كہ اس ميں كيا ہے تو وہ اس كے ليے ضرور آئيں، چاہے سرين كے بل گھسٹ كر ہى، ميں نے ارادہ كيا ہے كہ نماز كا حكم دوں اور نماز كے ليے اقامت كہى جائے، اور پھر ميں ايك شخص كو نماز پڑھانے كا حكم دوں، اور پھر خود كچھ ايسے آدميوں كو جن كے ساتھ ايندھن ہو اپنے ساتھ ان لوگوں كى طرف جاؤں جو نماز ميں حاضر نہيں ہوئے اور ان كو گھروں سميت جلا كر راكھ كر دوں "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 651 ).

4 – عيدگاہ اور سڑكوں ميں عورتوں اور مردوں ميں اختلاط، اور مردوں كے ساتھ دھكم پيل كرنا:

ايسا كرنے ميں عظيم فتنہ اور بہت زيادہ خطرہ ہے، عورتوں اور مردوں كو اس سے بچنے كا كہنا واجب ہے، اور اس سے بچنے اور منع كرنے كے حتى الامكان اقدامات كرنا ضرورى ہيں، اسى طرح مردوں اور نوجوانوں كو عيدگاہ سے عورتوں كے جانے كے بعد نكلنا چاہيے، عورتوں كے نكلنے سے قبل مرد اور نوجوان نہ نكليں.

5 – بعض عورتوں كا بے پرد اور بن سنور كر خوشبو لگا كر عيد گاہ جانا:

يہ مصيبت اور بيمارى عام ہو چكى ہے، اور لوگ اس ميں بہت ہى سستى اور كاہلى سے كام لے رہے ہيں، اللہ تعالى ہى مدد فرمائے، حتى كہ بعض عورتيں اللہ تعالى انہيں ہدايت سے نوازے تو نماز تراويح اور نماز عيد كے ليے نكلتى ہيں، خوبصورت ترين لباس زيب تن كرتى اور سب سے بہترين خوشبو استعمال كرتى ہيں.

حالانكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جو عورت بھى خوشبو لگا كسى قوم كے پاس سے گزرے اور لوگ اس كى خوشبو محسوس كريں تو وہ زانيہ ہے "

سنن نسائى حديث نمبر ( 5126 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 2786 ). علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح الترغيب والترھيب حديث نمبر ( 2019 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے.

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جو قسميں جہنمى ہيں، ميں نے انہيں نہيں ديكھا، ايك وہ قوم جن كے پاس گائے كى دموں جيسے كوڑے ہونگے وہ لوگوں كو مارينگے، اور وہ عورتيں جنہوں نے لباس تو پہنا ہوگا ليكن وہ ننگى ہونگى، دوسروں كو اپنى طرف مائل كرنے، اور خود دوسروں كى طرف مائل ہونے والى، ان كے سر بختى اونٹوں كى كوہان جيسے ہونگے، وہ نہ تو جنت ميں داخل ہونگى اور نہ ہى اس كى خوشبو كو پائينگى، حالانكہ جنت كى خوشبو اتنے اتنے فاصلہ سے آ جاتى ہے"

صحيح مسلم حديث نمبر ( 2128 ).

اس ليے عورتوں كے اولياء اور ذمہ داران كو اللہ تعالى كا ڈر اور تقوى اختيار كرنا چاہيے اور وہ اپنى ماتحت عورتوں كے متعلق اللہ سے ڈريں، اور اللہ تعالى نے ان كے متعلق جو ذمہ دارى ان پر ڈال ركھى ہے اسے پورى كريں، كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:

مرد عورتوں پر نگران ہيں، اس سبب سے كہ اللہ تعالى نے بعض كو بعض پر فضيلت دى ہے.

لہذا انہيں چاہيے كہ وہ ان كى راہنمائى كريں، اور انہيں اس كام كى طرف چلائيں جس ميں ان كى نجات و كاميابى ہو، اور اس ميں ان كى دين و دنيا كى سلامتى و بھلائى ہو، اور اللہ تعالى كى حرام كردہ اشياء سے دورى، اور اللہ تعالى كے قرب والى اشياء ميں ترغيب ہوتى ہو.

5 – حرام كردہ موسيقى اور گانے سننا:

اس دور ميں جو وبا اور مصيبت عام ہو چكى ہے وہ موسيقى اور ناچ گانے كى وبا ہے، يہ بہت پھيل چكى اور عام ہونے كى بنا پر لوگ اس ميں سستى و كاہلى سے كام ليتے ہيں، ٹيلى ويزن ميں بھى موسيقى، اور پھر ريڈيو ميں بھى، گاڑى ميں بھى اور گھر ميں بھى اور بازار جائيں تو وہاں بھى، لا حول ولا قوۃ الا بالا، ہر طرف موسيقى نے گھير ركھا ہے، بلكہ اب تو موبائل سيٹ بھى اس شر اور برائى سے محفوظ نہيں رہے، كمپنياں موسيقى ٹونز كى تيارى ميں ايك دوسرے سے آگے بڑھنے كى كوشش ميں لگى ہوئى ہيں، جس كى بنا پر يہ موسيقى تو اب مساجد ميں بھى پہنچ گئى اور اللہ تعالى كى پناہ اب تو مساجد بھى اس سے محفوظ نہيں رہيں.. جو كہ ايك عظيم شر اور برائى ہے كہ آپ مسجد جو كہ اللہ تعالى كا گھر ہے وہاں بھى موسيقى سنيں گے.

آپ اہميت كى خاطر سوال نمبر ( 34217 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں، يہ بالكل نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے مندرجہ ذيل فرمان كا مصداق ہے:

" ميرى امت ميں كچھ لوگ ايسے ہونگے جو زنا، ريشم، شراب، اور ناچ گانے كو حلال سمجھنے لگيں گے"

اسے بخارى نے روايت كيا ہے.

الحر: حرام فرج يعنى زنا كو كہتے ہيں.

المعازف: يہ ناچ گانا اور اس كے آلات كو كہتے ہيں.

مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 5000 ) اور ( 34432 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.

لہذا مسلمان شخص كو اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرنا چاہيے، اور اسے يہ علم ہونا چاہيے كہ اس پر اللہ تعالى كى نعمت كا حق يہ ہے كہ اس نعمت كا شكر ادا كيا جائے، اور يہ كوئى شكر نہيں كہ مسلمان اپنے رب اللہ تعالى كى نافرمانى و معصيت كا ارتكاب كرے، وہى اللہ اور رب ہے جس نے اس پر يہ نعمت كى ہے.

ايك صالح شخص عيد كے روز كچھ كھيل كود اور لغو كام كرتے ہوئے لوگوں كے پاس سے گزرا تو انہيں كہنا لگا:

اگر تم نے رمضان المبارك ميں اچھائى اور اچھے كام كيے ہيں، تو يہ احسان كا شكر نہيں جو تم كر رہے ہو، اور اگر تم نے غلطى اور برائى كى تو اللہ و رحمن كى نافرمانى كرنے والا ايسے نہيں كرتا.

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

answer

متعلقہ جوابات

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android