0 / 0

آیت ﴿ فمن تعجل فی یومین ﴾ کا معنی

سوال: 36617

میرا سوال حج میں جلدی کرنے کے بارہ میں ہے کہ جلدی کرنے والا شخص بارہ تاریخ کوہی کیوں سفرکرجاتا ہے اورتاخیرکرنےوالا تیرہ تاریخ کوجاتا ہے حالانکہ اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

﴿ فمن تعجل فی یومین ﴾ اس طرح جلدی توگیارہ تاریخ کوہونی چاہیے   ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

آیت کا معنی یہ ہے کہ جوکوئي ایام تشریق کے دودنوں میں جلدی کرنا چاہے ، جوگیارہ اوربارہ اورتیرہ ذوالحجہ کوبنتے ہیں ، تواس طرح تعجیل یعنی جلدی بارہ تاریخ کوبنے گی ، لگتا ہے کہ سوال کرنے والے نے پہلا دن عید کا شمار کیا ہے اس لیے وہ یہ سوال کررہا ہے ، اورایسا سمجھنا غلط ہے ۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں :

میں اپنے بھائیوں حجاج کرام کواس غلطی پرمتنبہ کرنا چاہتا ہوں کیونکہ بہت سارے حجاج کرام یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالی کے فرمان :

فمن تعجل فی یومین  کا معنی گیارہ تاریخ کومنی سے نکل جانے کوتعجیل شمار کرتے ہيں یعنی عید اورگیارہ تاریخ کودو دن شمار کرلیتے ہیں ، حالانکہ معاملہ ایسے نہيں بلکہ انہوں نے غلط سمجھا ہے ، کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

﴿اورچندگنے چنے دنوں میں اللہ تعالی کا ذکر کرو توجوکوئي بھی دودنوں میں جلدی کرلے اس پرکوئي گناہ نہيں ﴾ ۔

اس آیت میں ایام معدودات یعنی چندگنے چنے ایام سے مراد ایام تشریق ہیں ، اورایام تشریق کا پہلا دن گیارہ تاریخ کوبنتا ہے تواس طرح اللہ تعالی کے فرمان  فمن تعجل فی یومین کا معنی یہ ہوگا کہ : جس نے بھی ایام تشریق کے دو دنوں میں جلدی کی جوکہ بارہ ذوالحجہ کا دن بنتا ہے اس پرکوئي گناہ نہيں لھذا انسان کوچاہیے کہ وہ اس مسئلہ کے بارہ میں مفھوم کوصحیح کرے تاکہ وہ غلطی کا مرتکب نہ ہو ۔ اھـ

دیکھیں : فتاوی ارکان الاسلام صفحہ نمبر ( 566 ) ۔

واللہ اعلم

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android