0 / 0
3,62522/01/2014

سرمايہ كارى كرنے والى كمپنيوں ميں اپنا مال گنوا چكنے والوں كے ليے دس نصيحتيں

سوال: 34808

ان لوگوں كے ليے جنہوں نے اپنا مال سرمايہ كارى كرنے والى كمپنيوں ميں اپنا مال گنوا ليا ہے كيا نصيحت ہے ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

1 – مسلمان كو چاہيے كہ وہ اپنے مال كى سرمايہ كارى كسى مباح اور جائز كام ميں كرے، نہ كہ حرام كام ميں، اور اسے شبھات سے اجتناب كرنا چاہيے.

2 – سرمايہ كارى كے ليے اسے اختيار كرے جو امانت دار اور قوى ہو اور وہ مال كو صرف كرنے اور اسے كاروبار ميں لگانے پر طاقت ركھے اور مال كى سرمايہ كرنے اور اسے مال كو مختلف كاموں ميں لگانے كا تجربہ بھى ہو.

3 – يہ كہ شراكت اور سرمايہ كارى كا معاہدہ شرعا صحيح ہو، اور باطل اور اور حرام شرائط سے خالى ہو، لہذ ا ايسے معاہدہ ميں شامل ہونا جائز نہيں جس ميں راس المال يا منافع ميں سے كسى محدود مبلغ كى ضمانت ہو، اور ضرورى ہے كہ شراكت داروں كا تناسب معلوم ہو… الخ.

4 – شراكت دار اور سرمايہ كارى كرنے والے كو چاہيے كہ وہ لوگوں كا مال اور سرمايہ صرف كرتے وقت اللہ تعالى كا ڈر اور تقوى اختيار كرے، لہذا اسے وہ كچھ نہيں لينا چاہيے جس كا وہ تصرف ہى نہيں كرسكتا، اور كسى سے بھى وہ ايسا مال قبول نہ كرے جس كے بارہ ميں اسے علم ہو كہ وہ سرمايہ كارى ميں كم ہو جائے گا، اسے چاہيے كہ وہ مضاربت اور شراكت كى شروط كا التزام كرے، لہذا جب مال والا شخص يہ شرط ركھے كہ اس كے مال كى سرمايہ كارى كسى معين ملك اور شہر ميں كى جائے تو اس كے ليے اس شرط سے نكلنا جائز نہيں.

اور اگر كوئى شخص يہ شرط ركھے كہ اس كا مال كسى معين كام ميں لگايا جائے تو اس سے باہر نہيں نكلنا چاہيے، اور اس كے ليے جائز نہيں كہ وہ لوگوں كے ليے حيلہ كرے اور انہيں يہ باور كرائے كہ اسے نفع ہو رہا ہے حالانكہ حقيقت ميں اسے نفع نہيں ہو رہا، اور اگر اس كے پاس حقيقى تجارت نہ ہو جس سے مال ميں نفع ہو اور بڑھے تو اس كے ليے پرانے حصہ داروں كے راس المال سے نئے حصہ داروں كو منافع دينا كبيرہ گناہوں ميں سے ہے، جب اسے يقينى علم ہو كہ اس كے پاس اتنى تجارت نہيں كہ وہ لوگوں كو بڑا منافع دے تو اسے لوگوں بڑى نسبت سے منافع دے كر دھوكہ نہيں دينا چاہيے.

5 – اسے چاہيے كہ وہ اللہ تعالى كا ڈر اور خوف ركھتے ہوئے لوگوں ميں اموال ميں سرمايہ كارى كے ليے عملہ كے ايسے تجربہ كار افراد بھرتى كرے جو مالى اور دفترى معاملات كے ماہر اور تجربہ كار ہوں، اور اس نے جو مال لوگوں سے سرمايہ كارى كے ليے حاصل كيا ہے اس كى سرمايہ كارى كرنے پر قدرت ركھتے ہوں.

خسارہ اور نقصان ہو جانے كى صورت ميں:

– لوگوں كے مال كى سرمايہ كارى كرنے والے پر ضرورى اور واجب ہے كہ وہ لوگوں كو سچائى اور امانت كے ساتھ جو كچھ ہوا اس كى حقيقت بتائے.

– اور اگر اس كى جانب سے زيادتى يا كوتاہى ہو تو وہ اس كوتاہى كا ضامن ہے، اور اسے اپنى كوتاہى اور زيادتى سے حاصل ہونے والے خسارہ كو خود برداشت كرنا ہو گا.

– مال كے مالك كو چاہيے كہ جب اسے خسارہ ہو جائے تو وہ اللہ تعالى كى رضا اور اس كے فيصلہ اور تقدير پر راضى ہو، اور اس مصيبت اور مشكل كو كم كرنے كى كوشش كرے اور اس كے اثرات كو زائل كرنے كا علاج كرے، جتنا بھى ممكن ہو سكے وہ شرعا ہر جائز اور مباح طريقہ سے راس المال كو بچانے كى كوشش كرے.

– بلاشبہ اللہ تعالى كى تقدير اور فيصلہ پر راضى ہونا مالى خسارے اور نفسياتى ہلاكت اور معنوى گراوٹ سے دور كرديتا ہے، تو اسے نہ تو پاگل پن كے دورے پڑتے ہيں يا پھر دلى سكتہ ہوتا ہے، يا خود كشى جيسا فعل، جيسا كہ وہ لوگ كرتے ہيں جو اس پر صبر نہيں كرتے، اور اسے چاہيے كہ وہ مندرجہ ذيل حقائق كو ياد ركھے:

انسان كو جو مصائب بھى اس كى جان اور نفس ميں پہنچتے ہيں يا پھر اس كے مال اور خاندان ميں يا اس كے معاشرہ ميں پہنچنے والے مصائب يہ سب كوئى خالص شر اور برائى نہيں، جو جزع فزع واجب كرديں، بلكہ اگر مومن انہيں اچھے اور بہتر انداز ميں لے اور ان سے معاملہ كرے تو يہ اس كے خير و بھلائى ہيں: لہذا وہ:

ا – خيراور بھلائى ہيں جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" مومن كا معاملہ بہت ہى عجيب و غريب ہے، اس كے سارے معاملات ہى خير وبھلائى ہيں، اور يہ صرف مومن كے ليے ہيں اس كے علاوہ كسى اور كے ليے نہيں، اگر اسے اچھائى اور خوشى پہنچتى ہے تو وہ شكر كرتا ہے تو يہ اس كے ليے خير اور بھلائى ہے، اور اگر اسے كوئى تكليف اورمصيبت پہنچتى ہے تو اس پر صبر كرتا ہے تو يہ اس كے خير اور بہتر ہے" ديكھيں: صحيح مسلم حديث نمبر ( 2999 ).

ب ـ ہو سكتا ہے اللہ تعالى نے اس كے ساتھ بھلائى كا ارداہ كيا ہو:

امام بخارى رحمہ اللہ تعالى نے ابو ہريرہ رضي اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اللہ تعالى جس كے ساتھ خير وبھلائى چاہتا ہے اسے آزماتا ہے" صحيح بخارى حديث نمبر ( 5645 ).

حافظ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں كہ: ابو عبيد الھروي رحمہ اللہ تعالى كا كہنا ہے كہ: اس كا معنى يہ ہے كہ اللہ تعالى اسے مصائب اور مشكلات كے ساتھ آزماتا ہے تا كہ اسے اس پر اجروثواب سے عطا كرے.

ج ـ ہو سكتا ہے اللہ تعالى اس سے محبت كرتا ہو:

" اللہ تعالى جب كسى قوم سے محبت كرتا ہے تو انہيں آزمائش ميں ڈالتا ہے، تو جو كوئى صبر كرے اسے صبر ملتا ہے، اور جو كوئى جزع وفزع كرے اس كے ليے آہ و بكا اورجزع فزع ہے"

اس كے راوى ثقہ ہيں.

اور سخبرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جسے عطا كيا گيا تو اس نے صبر كيا اور اس كى آزمائش ہوئى تو اس نے صبر كيا، اور ظلم كيا تو توبہ و استغفار كرلى، اور ظلم كيا گيا تو معاف كر ديا، يہى وہ لوگ ہيں جن كے ليےامن ہے اور يہى ہدايت يافتہ ہيں" اسے طبرانى نے حسن سند كے ساتھ روايت كيا ہے. اھـ حافظ رحمہ اللہ كى كلام ختم ہوئى.

د – اللہ سبحانہ وتعالى نے اپنى كتاب حكيم قرآن مجيد ميں دلوں كو راحت دينے، اور نفس كى پراگندگى كو سيدھا كرنے كا طريقہ بيان كيا ہے، اور يہ صبر اور استرجاع ( يعنى انا للہ و انا اليہ راجعون پڑھنا ) كے ساتھ ہے اور اسے اللہ تعالى كى جانب سے مكمل اور پورے بدلہ اور اس ثواب كے ساتھ ملايا گيا ہے جس كے ساتھ اللہ تعالى اسے صابر اور ثواب كى نيت كرنے والوں تك پہنچا ديتا ہے، اور اللہ تعالى كى جانب سے يہ ايسا وعدہ ہے جسے وہ عنقريب پورا كرنے والا ہے.

جيسا كہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اور صبر كرنے والوں كو خوشخبرى دے ديں، وہ لوگ جب انہيں كوئى مصيبت پہنچتى ہے تو وہ كہتے ہيں بلاشبہ ہم اللہ تعالى كے ليے ہيں اور بلا شبہ ہم نے اسى كى جانب لوٹنا ہے، يہى ہيں وہ لوگ جن پر ان كے پروردگار كى جانب سے ان پر اس كى نوازشيں اور رحمتيں ہيں، اور يہى لوگ ہدايت يافتہ ہيں البقرۃ ( 155 – 157 ).

امام قرطبى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

اللہ عزوجل نے كلمات استرجاع كو مصيبت زدہ لوگوں كے ليے ملجا اور پناہ گاہ بنائيں ہيں اور وہ كلمات يہ ہيں جو ايك مصيبت زدہ كہتا ہے: ( انا للہ و انا اليہ راجعون ) ( بلا شبہ ہم اللہ تعالى كے ليے ہيں اور اسى كى جانب لوٹنے والے ہيں ) اور يہ كلمات آزمائش والوں كے ليے شيطان سے بچاؤ ہيں، تا كہ شيطان مصيبت زدہ انسان پر مسلط نہ ہو جائے اور اسے غلط اورردى قسم كے افكار كے وسوسے نہ ڈالنے شروع كردے، اور جس ٹھنڈا ہو چكا ہے اس ميں ہيجان اور جوش نہ پيدا ہو جائے، اور جو چھپ چكا تھا وہ ظاہر ہو جائے، اس ليے كہ وہ خير وبھلائى اور بركت كے جامع ان كلمات كى طرف لپكاہے، كيونكہ اس كا يہ كہنا: " انا للہ " يہ الفاظ اوركلمات عبوديت اور ملك كا اقرار ہے، بندہ يہ اعتراف كرتا ہے كہ وہ اللہ كى ملكيت ہے اور جو كچھ اسے پہنچا ہے وہ بھى اللہ كى جانب سے ہے لھذا بادشاہ اپنى بادشاہى اور ملكيت والى اشياء ميں جس طرح اور جو چاہے تصرف كر سكتا ہے.

اور اس كا يہ كہنا: " وانا اليہ راجعون" اس بات كا اقرار ہے كہ اللہ تعالى ہميں موت دينے والا اورہلاك كرنے والا ہے، پھر ہميں اٹھائے گا، لہذا پہلے بھى اس كاحكم اور اخرت ميں بھى اسى كى طرف پلٹنا ہے، اور اسى طرح اس ميں اللہ تعالى كى جانب سے اجروثواب كى اميد بھى ہے.

اور اس انا للہ پڑھنے كى بركت اس كے ساتھ جو كچھ بيان كيا گيا ہے يہ بھى ہے جو ام سلمہ رضي اللہ تعالى عنہا سے وارد ہے:

وہ كہتى ہيں كہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتے ہوئے سنا:

" جو كوئى مسلمان جسے مصيبت پہنچے تو وہ يہ ايسا ہى كہے جيسا اللہ تعالى نے اسے حكم ديا ہے كہ: انا للہ وانا اليہ راجعون، بلاشبہ ہم اللہ تعالى كے ليے ہيں اور اسى كى جانب لوٹنے والے ہيں، اور پھر يہ دعا پڑھے:

" اللهم أجرني في مصيبتي ، وأخلف لي خيراً منها " اے اللہ مجھے ميرى مصيبت ميں اجر عطا فرما، اور اس كے بعد مجھے نعم البدل عطا فرما)

تو اللہ تعالى اسے اس كا نعم البدل عطا فرماتا ہے.

ھـ يہ غلطيوں كا كفارہ ہے: اس كى دليل وہ حديث ہے جسے امام بخارى اورامام مسلم نے اپنى صحيحين ميں نقل كيا ہے:

عائشہ رضي اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" كسى بھى مسلمان كو جو بھى مصيبت اور تكليف پہنچتى ہے اللہ تعالى اس كے ساتھ اس كے گناہ معاف كرديتا ہے، حتى كہ جو اسے كانٹا لگے اس كانٹا لگنے كى وجہ سے بھى" اسے بخارى اور مسلم نے روايت كيا ہے.

د – جب كسى مصيبت اور تكليف كى خبر ملے تو مطلوب يہى ہے كہ اسے سنتے ہى صبر وتحمل كا مظاہرہ كيا جائے، مثلا كسى سرمايہ كمپنى كے گرنے كى خبر ملے تو اس برى خبر كو سنتے ہى صبر وتحمل كرنا چاہيے: اور يہ سكتہ اور نفسياتى گراوٹ اور عصبى تكليف سے بچاؤ كرتا ہے، اس پر مستزاد يہ كہ جس صبر پر بندے كو اجروثواب حاصل ہوتا ہے وہ صدمے كى ابتدا ميں كيا جانے والا صبر ہے.

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" بلاشبہ صبر تو پہلے صدمہ كے وقت ہے" صحيح بخارى حديث نمبر ( 1238 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 926 ).

امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

اس كا معنى كامل اور مكمل صبر ہے كثرت مشقت كى وجہ سے جس پر اجرعظيم ديا جاتا ہے. اھـ

و ـ جب بندہ مصيبت اور آزمائش كے ساتھ اچھا اور بہتر معاملہ كرتا ہے تو وہ اس كے حق ميں نعمت بن جاتى ہے، جبكہ اللہ تعالى اس كے ساتھ اس كى گناہوں اور غلطيوں كو معاف كرتا اور اس كے درجات كو بلند كرتا ہے.

اللہ تعالى آزمائش اور مصائب كے ساتھ نعمت سے نوازتا ہے اگرچہ وہ بڑى ہى كيوں نہ ہو، اور بعض لوگوں كو اللہ تعالى نعمتوں كے ساتھ آزماتا ہے.

ز – مسلمان كو چاہيے كہ وہ يہ يقين كرلے كہ اس كا مال چلا جانا اس بات كى دليل نہيں كہ اللہ تعالى نے اس كى تو ہين كى ہے، اللہ تعالى نے تو ہميں يہ بتايا ہے كہ مالدارى اور فقيرى دونوں ابتلاء و آزمائش اورامتحان كى سوارياں ہيں، اسى كے متعلق اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

( انسان كى يہ حالت ہے كہ ) جب انسان كو اس كا رب آزماتا ہے اور عزت و نمعت سے نوازتا ہے تو وہ كہنے لگتا ہے كہ ميرے رب نے مجھے عزت دار بنايا، اور جب وہ اس كو آزماتا ہے اور اس كى روزى تنگ كر ديتا ہے تو وہ كہنے لگتا ہے كہ ميرے رب نے ميرى اہانت كى ( اور مجھے ذليل كيا ) الفجر ( 15 – 16 ).

ح ـ مسلمان شخص كو چاہيے كہ وہ مصيبت اور آزمائش كے وقت اللہ تعالى كے ان بندوں كى اتباع اور پيروى كرے جو اس سے پہلے گزر چكے ہيں اور ان پر مصائب آئے تو انہوں نے كيسا عمل كيا، اللہ سبحانہ وتعالى نے ايوب عليہ السلام كى مصيبت اور آزمائش كو ختم كرنے كے بارہ ميں فرمايا:

اپنى جانب سے رحمت كرتے ہوئے

يعنى ہم نے اس سے سختى كو رفع كرديا اور اس پر اپنى جانب سے رحمت اور نرمى و احسان كرتے ہوئے اس كى تكليف كو دور كرديا، اور فرمايا:

اور عبادت گزاروں كے ليے بطور نصيحت اور ياد دہانى

يعنى جو جسمانى يا مالى اور اولاد كى ابتلاء اور آزمائش ميں ہو اسے چاہيے كہ وہ اللہ تعالى كے نبى ايوب عليہ السلام كو اپنا اسوہ اور آيڈيل بنائے، جبكہ اللہ تعالى نے انہيں اس سے بھى بڑى آزمائش ميں ڈالا تو انہوں نے بھى صبر وتحمل سے كام ليا اور اجروثواب كى نيت كى حتى كہ اللہ تعالى نے ان سے اس آزمائش كو ختم كرديا.

وليد بن عبدالملك كے پاس عبس علاقہ سے ايك نابينا بوڑھا آيا، اور جب ايك رات كو اس كے پاس بيٹھا ہوا تھا تو وليد نے اس كے حالات كے متعلق دريافت كيا ؟

تو وہ كہنے لگا: اے امير المومنين ميں نے ايك رات سويا ہوا تھا, اور حالت يہ تھى كہ عبس كے علاقہ ميں مجھ سے زيادہ مال ودولت گھوڑے اور اونٹوں اور اولاد اور عزت و مرتبہ والا كوئى شخص نہيں تھا.

ايك رات سيلاب آيا اور مال ودولت اور اہل وعيال سب كچھ اپنے ساتھ بہا لے گيا، اور ہمارے خاندان ميں صرف ايك نومولود بچے اور اونٹ كے چھوٹے سے بھاگے ہوئے بچے كے علاوہ كچھ نہ چھوڑا، لہذا ميں بچے كى جانب متوجہ ہوا اوراسے اٹھا ليا، اور پھر اس اكيلے اونٹ كے بچے كے پيچھے ہو ليا، جب ميں اس نہ پكڑ سكا تو ميں نے بچے كو زمين پر لٹايا اور اس اونٹ كے بچے كے پيچھے چل ديا تو ميں نے بچے كى آواز سنى اور جب اس كى جانب واپس پلٹا تو اسے بھيڑيا كھا چكا تھا، لہذا ميں اونٹ كے تك پہنچ گيا اور جب اسے پكڑا تو اس نے ميرے چہرہ پر دولتى مارى جس كى بنا پر ميرى آنكھيں جاتى رہيں اور مجھے ميرى گدى كے بل گرا ديا، جب مجھے ہوش آيا تو ميں شام كو تو صاحب ثروت اور مال ودولت اور عزت ومرتبہ اور صاحب اولاد تھا ليكن جب صبح كى تو خالى ہاتھ تھا، نہ تو ميرى آنكھوں ميں روشنى اور نظر تھى اور نہ ہى اہل و اولاد اور مال ودولت، تو ميں نے اس پر اللہ تعالى كا شكر ادا كيا.

تو وليد كہنے لگا: اسے عروہ بن زبير كے پاس لے جاؤ تا كہ اسے يہ پتہ چل جائے كہ دنيا ميں ايسا شخص بھى ہے جو اس سے بھى زيادہ ازمائش ميں پڑا اور بہت زيادہ صبر وتحمل والا ہے.

شاعر نے كيا ہى خوب كہا ہے:

جب تجھے كسى آزمائش ميں مبتلا كيا جائے تو اس پر صبر كر، عزت و كرم والا صبر كيونكہ يہى زيادہ بہتر اور اچھا ہے.

اور جب تجھے كسى مصيبت كے ساتھ آزمايا جائے تو تو اسے سكوت اورخاموشى كا لباس پہنا كيونكہ يہ اس كے ليے زيادہ سليم ہے.

تم بندوں سے شكايت نہ كرو كيونكہ تم اس رحم كرنے والے رحيم كى شكايت اس كے سامنے كر رہے ہو جو رحم كرتا ہى نہيں.

اور كتنى ہى آزمائشيں صاحب آزمائش اور ابتلاء كے ليے نعمت كا درجہ ركھتى ہيں، كتنے ہى بندے ايسے ہيں جن كے ليے فقر اور بيمارى ميں ہى خير اور بھلائى ہے، اور اگر اس كا بدن صحيح ہو جائے اور اسے مال زيادہ مل جائے تو وہ اكڑنے لگے اور بغاوت كرنے لگے:

فرمان بارى تعالى ہے:

اور اگر اللہ تعالى اپنے سب بندوں كے ليے رزق ميں كسائش كردے تو وہ زمين ميں فساد مچانے لگيں الشورى ( 27 ).

كسى شاعر نے كيا ہى خوب كہا ہے:

اپنى پريشانيوں اور غموں سے اعراض كرنے والا بن، اور امور كو قضا اورقدر كے سپرد كردے.

اور جلدى آنے والى خير وبھلائى كے ساتھ خوش ہو جا جو تجھے پچھلا سب كچھ بھلا دے گى.

ہو سكتا ہے بہت سے ايسے معاملات جو تيرى ليے ناپسند اور تجھے ناراض كرنے والے ہيں ان كے انجام ميں تيرے ليے رضا اور خوشى ركھى ہو.

اور ہو سكتا ہے كہ تنگى والى تنگ ہو اور ہو سكتا ہے فضا وسيع ہو .

اللہ تعالى جو چاہتا ہے كرتا ہے، لہذا تم اس پر اعتراض كرنے والے نہ بنو.

اللہ تعالى نے خوبصورتى كا عادى بنايا ہے، جو كچھ گزر چكا اس پر قياس كرو.

ط – سرمايہ كارى كرنے والى كمپنيوں كا گر جانا اور نيچے چلے جانے كا معنى يہ نہيں كہ اس كا مال بالكل واپس نہيں ملے گا، بلكہ ہو سكتا ہے اسے نصف يا اس سے زيادہ يا كم مال مل جائے، اور اگرچہ سارے مال كا بھى خسارہ ہو جائے تو يہ دنيا كا خاتمہ نہيں، اور نہ ہى سب اميدوں پر پانى پھر جانا اور گم جانا ہے، بلكہ ممكن ہے كہ اللہ تعالى اسے مستقبل ميں كوئى اور مال عطا كردے اور جب صبر كرے تو وہ اس كے عوض ميں مال دے دے.

6 – ہر اس جھوٹ سے جس كا علم ہو يا اس نے كسى دوسرے كو حقيقت كے علاوہ كچھ اور باور كرايا ہو يا كچھ چھپايا اور تدليس كى ہو يا پھر وہ لوگوں سے كسى خاص كام ميں سرمايہ كارى كرنے كے ليے رقم لے كر اسے گھاٹے ميں جانے والى سرمايہ كارى كى كمپنيوں ميں لگا كر دھوكہ ديتا رہا ہو اور اس كا نفع كمپنى اور اپنے مابين تقسيم كرتا رہا ہو، اس سب كچھ سے اللہ تعالى كے ہاں سچى اور خالص توبہ كرے.

اور اسى طرح جس نے لوگوں كے مال كے ساتھ دھوكہ كيا يا اپنى بہن اور والدہ يا بيوى كى ضروريات والى اشياء كے ساتھ دھوكہ كيا اور انہيں اصل حقيقت كا نہ بتايا كہ وہ اس كے مال سے كيا كرے گا، اور اسى طرح جس نے ان سرمايہ كارى كرنے والى كمپنيوں ميں شراكت كے ليے سودى قرض حاصل كيا وہ بھى توبہ كرے، اور ہو سكتا ہے كہ حقائق منكشف كرنے ميں بہت سى عبرتيں اور عظيم سبق ہوں جن سے استفادہ كرنا واجب اور ضرورى ہے.

7 – وعظ ونصيحت كرنے والوں كو چاہيے كہ وہ لوگوں كو اس طرح كى دھوكہ بازوں سے ڈرائيں اور بچنے كا كہيں، ان كہ علم ميں ہونا چاہيے كہ اس طرح حالات ميں برا بھلا كہنے كى كوئى راہ نہيں، بلكہ انہيں چاہيے كہ وہ مصبيت زدہ سے ہر وسيلہ اور طريقہ كے ساتھ مصيبت ہلكى كريں اور ان كى غم و پريشانى ميں ان كو تسلى و تشفى ديں اور ضرر اٹھانے والوں كو ہر قسم كى مدد و تعاون مہيا كريں.

8 – بلا شبہ دين اسلامى اور دين پر سچائى اور سختى سے كاربند افراد كسى بھى حال ميں كسى بھى جھوٹ اور كذب بيانى يا دھوكہ وفراڈ، يا خيانت اور ہيرا پھيرى، يا غلط طريقہ سے لين دين يا غلط طريقہ سے مال ہڑپ كرنا اور اس ميں اچانك خبط اور اسے نقصان دہ جگہوں ميں لگانا، يا اسے مصائب و بلا اور حيلہ پر پيش كرنے كے نتائج كے متحمل نہيں ہوتے، بلكہ اس كے نتائج كا متحمل تو ہر وہ شخص ہے جو جھوٹ اوركذب بيانى سے كام لے، اور زيادتى كى جرات كرے، وہ اكيلا ہى اس كے نتائج بھى بھگتے گا، يہ جائز نہيں كہ اس كى بے عقلى اور غلط تصرف يا جھوٹ و كذب بيانى اور حيلہ بازى كا نتيجہ كسى اور پر ڈال ديا جائے.

فرمان بارى تعالى ہے:

اور كوئى بھى بوجھ اٹھانے والا كسى دوسرے كا بوجھ نہيں اٹھائے گا

اور ايك دوسرےپر كچھ اس طرح فرمايا:

اور جب تم بات كرو تو عدل و انصاف سے كرو

اور ايك مقام پر فرمايا:

عدل وانصاف كرو يہ تقوى و پرہيز گارى كے زيادہ قريب ہے

اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:

عدل وانصاف قائم كرنے والے ہو جاؤ

9 – نقصان اور خسارہ ہو جانے كى صورت ميں شرعى طريقوں پر چلنا ضرورى اور واجب ہے، لہذا خسارہ كے بعد باقى بچنے والے مال كو راس المال كے مالكوں ميں تقسيم كيا جائے، اور انہيں اسوہ اور نمونہ بننا ہو گا لہذا ہر ايك كو اس كے اصلى اور راس المال ميں سے حساب اور تناسب سے كے مطابق ديا جائے گا.

يہ جائز نہيں كہ ان قرضوں اور اموال كى كم رقم ميں خريدارى كى دلالى كا بازار لگا ديا جائے جن كا حصول مكمل نہيں ہوا، كيونكہ يہ رباالفضل ( زيادہ سود ) اور رباالنسيئۃ ( ادھار سود ) جمع كرتا ہے، اور سود خورى اكبر الكبائر يعنى كبيرہ گناہوں ميں سے ہے.

10 – مسلمانوں كو چاہيے كہ وہ اپنے سينے ايك دوسرے كے ليے كشادہ كريں، لہذا گالى گلوچ يا برا بھلا كہنے يا بيوى كو طلاق دينے يا قطع تعلقى اور والدين كى نافرمانى يا دوسروں پر زيادتى كرنے كى كوئي گنجائش نہيں پائى جاتى.

اور استطاعت و قدرت ركھنے والے مسلمانوں كو چاہيے كہ وہ راس المال كے مالك لوگوں ميں سے مساكين و كمزور اور يتيموں اور بيواؤں، اور بوڑھوں اور محدود اور كم آمدنى والے لوگ جنہوں نے اپنے گھر اور گاڑياں فروخت كركے اسے خسارے والى تجارت اور سرمايہ كارى ميں لگايا ان كا حتى الوسع تعاون اورمدد كريں، اور خيراتى مال سے جتنا بھى ہو سكے بچائيں جو اس شراكت ميں ظلم و زيادتى كے ساتھ چندہ دينے اورخيرات كرنے والوں كى اجازت كے بغير ہى اس سرمايہ كارى ميں لگايا گيا ہے، اور اس كے پيچھے كوئى آواز اور مطالبہ نہيں تو اس حق كا مطالبہ كرتا ہو.

اور مسلمان وكلاء كو بھى چاہيے كہ وہ كمزور لوگوں كے حقوق كے حصول ميں ان كى مدد كريں اور خيراتى مال كو بچا كر اجروثواب كى نيت ركھيں، اور ابرياء كو برى كريں اور دين كے معاملہ ميں پند ونصائح اور مشورہ ديتے رہيں.

ہمارى اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ نقصان اٹھانے اور مصيبت زدہ افراد كو اپنى جانب سے نعم البدل عطا فرمائے، اور جو مصيبت اور آزمائش آئى ہے اس پر انہيں صبر و تحمل دے، اور وہ اللہ عزوجل سب سے بہتر روزى رساں اور خير الرازقين ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ

الشيخ محمد صالح المنجد

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android