0 / 0
20,48310/12/2007

قربانی کرنے والے کے اہل وعیال عشرہ ذی الحجہ میں اپنے بال اورناخن وغیرہ کاٹ سکتے ہیں

سوال: 33743

جب مرد نے قربانی کرنی ہوتوکیا اس کی بیوی اوربچوں کے لیے ذی الحجۃ کا چاند نظر آنے کےبعد اپنےبال اورناخن وغیرہ کاٹنے جائز ہیں ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

جی ہاں ایسا کرنا جائز ہے ، اورسوال نمبر ( 36567 ) کے جواب میں یہ بات بیان ہوچکی ہے کہ قربانی کرنے والے شخص کےلیے اپنے بال اورناخن یا جسم کے کسی بھی حصہ سےکچھ کاٹنا حرام ہے ، اوریہ حکم صرف قربانی کرنے والے کے ساتھ خاص ہے جس نے قربانی کرنی ہو، آپ اس کی تفصیل وہاں دیکھ سکتے ہیں۔

شیخ ابن باز رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :

اورقربانی کرنے والے کے اہل وعیال پرکچھ نہیں ، اورعلماء کرام کے صحیح قول کے مطابق انہیں بال اورناخن کاٹنے سے منع نہيں کیا جائيگا ، بلکہ یہ حکم توصرف قربانی کرنے والے کے ساتھ خاص ہے جس نے اپنے مال میں سے قربانی خریدی ہے ۔ اھـ

دیکھیں : فتاوی اسلامیۃ ( 2 / 316 ) ۔

اوراللجنۃ الدائمۃ ( مستقل فتوی کمیٹی ) کے فتوی میں ہے کہ :

جوشخص قربانی کرنا چاہے اس کے حق میں یہ مشروع ہے کہ وہ ذی الحجۃ کا چاند نظر آنے کے بعد اپنے بال اورناخن اپنے جسم کےکسی بھی حصہ سے کوئي بھی چيز نہ لے ، اس کی دلیل امام بخاری کے علاوہ محدثین کی ایک جماعت کی روایت کردہ مندرجہ ذیل حدیث ہے :

ام سلمہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

( جب تم ذی الحجہ کا چاند دیکھ لو اورتم میں سے کوئي ایک قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہوتووہ اپنے بالوں اورناخن ( کے کاٹنے ) سے رک جائے ) ۔

اورابوداود اورمسلم کے الفاظ یہ ہیں :

( جس کے پاس ذبح کرنے کے لیے کوئي قربانی ہو توجب ذی الحجہ کا چاند نظر آجائے تووہ قربانی ذبح کرنے تک وہ اپنے بال اورناخن نہ کاٹے )

سنن ابوداود حدیث نمبر ( 2791 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1977 )

چاہے وہ قربانی خود اپنے ہاتھ سے ذبح کرے یا پھر اسے ذبح کرنے میں کسی اورکووکیل بنائے ، لیکن جس کی جانب سے ذبح کی جارہی ہے اس کےحق میں مشروع نہيں ، کیونکہ اس میں کوئي چيز وارد نہيں ۔ اھـ

دیکھیں : فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء ( 11 / 397 ) ۔

اورشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی اپنی کتاب " الشرح الممتع میں کہتےہیں :

جس کی جانب سے قربانی کی جارہی ہے اس کےلیے ( بال وغیرہ ) کاٹنے میں کوئي حرج نہيں ، اس کی دلیل مندرجہ ذيل ہے :

1 – حدیث کا ظاہر یہی ہے کہ یہ حرمت صرف قربانی کرنے والے کے ساتھ خاص ہے ، تواس بنا پرتحریم گھر کے سربراہ کے ساتھ مختص ہوگی ، لیکن اہل وعیال پریہ حرام نہيں ہوگا ، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم قربانی کرنے والے کےساتھ معلق کیا ہے ، لھذا اس کا مفھوم یہ ہوا کہ جس کی جانب سے قربانی کی جارہی ہے اس کےلیے یہ حکم ثابت نہيں ہوتا ۔

2 – نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنے اہل وعیال کی جانب سے قربانی کیا کرتے تھے لیکن ان سے یہ یہ منقول نہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر والوں کوبھی یہ فرمایا ہو ، تم اپنے بال اورناخن اورجسم کےکسی بھی حصہ سے کچھ بھی نہ کاٹو ، اگران پریہ حرام ہوتا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم انہيں اس سے منع کرتے ، اور راجح قول یہی ہے ۔ اھـ

دیکھیں : الشرح الممتع لابن عثیمین رحمہ اللہ ( 7 / 530 )

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

answer

متعلقہ جوابات

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android