0 / 0
13,99923/05/2014

اپنے آپکو خود کش حملے میں اُڑانے کا حکم

سوال: 217995

سوال: کافی تعداد میں کافر دشمنوں کو قتل کرنے کیلئے اپنے آپکو بم دھماکے سے اڑانے کا کیا حکم ہے، جسے عام طور پر فدائی حملہ یا خودکش حملہ کہا جاتا ہے؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اپنے آپ کو بم سے اڑانا خودکشی ہے جو کہ سورہ نساء کی آیت 29 کی رو سے حرام ہے، فرمایا: ( وَلا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ ) یعنی آپنے آپکو خود قتل مت کرو۔

ایسے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی رو سے بھی حرام ہے کہ آپ نے فرمایا: (جس نے اپنےآپکو تیز دھار آلے سے قتل کیا، تو وہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ کیلئے یہی تیز دھاری آلہ ہاتھ میں لیکر اپنے پیٹ پر وار کرتا رہے گا)

بخاری ( 5442 ) اورمسلم ( 109 ) نے اسے روایت کیا ہے۔

اس حملے کو اصحاب الاخدود کے لڑکے [جس نے بادشاہ کو اپنے قتل کرنے کا طریقہ بتلایا تھا، کہ اگر تم مجھے مارنا چاہتے ہو تو تیر چلاتے ہوئے کہو:”اس لڑکے کے رب کے نام سے میں تیر چلاتا ہوں” تو بادشاہ نے اس پر عمل کیااور وہ لڑکا قتل ہوگیا]پر قیاس کیا جاسکتا ہے؛ کیونکہ اس نے اپنے ہاتھ سے آپنے آپ کو قتل نہیں کیا، بلکہ وہ کافر بادشاہ کے ہاتھ سے قتل ہوا تھا، اسی طرح براء بن مالک رضی اللہ عنہ کے قصہ پر بھی قیاس نہیں کیا جاسکتا ہے[انہوں نے صحابہ کرام کو یمامہ کی لڑائی کے وقت اپنے آپکو قلعے کے اندر پھینکنے کا مشورہ دیا تھا اور کہا تھا کہ میں اندر جا کر قلعے کا دروازہ کھول دونگا اور انہوں نے واقعی کھول بھی دیا تھا] اور خود کش حملہ کیلئے نہ ہی اس حدیث سے دلیل لی جاسکتی ہے جس میں حفاظتی لباس کے بغیر دشمن کی صفوں میں گھسنے کا ذکر ہے[عوف بن عفراء رضی اللہ عنہ نے بدر کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا کہ اللہ تعالی کو کونسی چیز ہنسا سکتی ہے، تو آپ نے فرمایا تھا: کہ دشمنوں سے قتال کیلئے خود اور زرہ کے بغیر انکی صفوں میں داخل ہوجانا ، توانہوں نے سب کچھ اتار دیا اور لڑتے لڑتے شہید ہوگئے، سنن الکبری بیہقی: 18708] کیونکہ ان میں سے کسی نے بھی خود اپنے آپکو قتل نہیں کیا؛ویسے بھی ان حالات میں بچ جانے کا قوی امکان ہوتا ہے، لیکن خود کش حملہ میں بچنے کا بالکل امکان نہیں ہوتا ، اور مزید برآں یہ بھی ہے کہ بسا اوقات خود تو ختم ہو ہی جاتا ہے لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوتا، اگر ہوتا بھی ہے تو بہت کم، یا بے گناہ لوگ ساتھ میں مارے جاتے ہیں، یا پھر دشمن اسکا دگنا انتقام لیتا ہے۔

یہی فتوی بہت بڑے بڑے معاصر علمائے کرام نے بھی دیا ہے، چنانچہ علامہ شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:

ایسے شخص کا کیا حکم ہے جو کچھ یہودیوں کو قتل کرنے کیلئے اپنے آپکو دھماکے سےاُڑائے؟

تو انہوں نے جواب دیا:

“میری نظر میں یہ کام درست نہیں ہے، اور کئی بار اس کے متعلق متنبہ بھی کرچکا ہوں، کیونکہ یہ قتل کے مترادف ہے، اور اللہ تعالی فرماتا ہے: (ولا تقتلوا أنفسكم) [یعنی اپنی جان کو قتل مت کرو] اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جس نے اپنی جان کو کسی بھی چیز سے قتل کیا ،قیامت کے دن اسی چیز کیساتھ اسے عذاب دیا جائے گا)[ بخاری( 5700 ) ومسلم ( 110 )]۔۔۔ اور اگر شرعی جہاد شروع ہوجائے تو مسلمانوں کے ساتھ مل کر جہاد کرے، چنانچہ اگر قتل ہوجائے تو الحمد للہ، لیکن بارودی مواد اپنے ساتھ رکھ کر خود کش حملہ کرے اور انہی یہودیوں کے ساتھ !مارا جائے تو یہ غلط ہے، جائز نہیں”

http://www.youtube.com/watch?v=hciR4pl-odk

اسی طرح فقیہ الشیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ سے خود کش حملوں کے بارے میں پوچھا گیا:

تو انہوں نے جواب دیا: “ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جن خود کش حملوں میں موت یقینی ہو تو یہ حرام ہے، بلکہ یہ کبیرہ گناہ ہے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ وعید سنائی ہے کہ : (جس نے دنیا میں کسی چیز کے ساتھ اپنے آپکو قتل کیا قیامت کے دن اسی چیز کے ساتھ اسے عذاب دیا جائے گا) [بخاری ( 5700 ) اورمسلم ( 110 )] اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بھی چیز کو مستثنی نہیں کیا، اس لئے یہ حکم عام ہے؛ اور اس لئے بھی خود کش حملہ حرام ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ کا مقصد اسلام اور مسلمانوں کی حفاظت ہے؛ جبکہ یہ خود کش حملہ آور آپنے آپکو دھماکے سے اُڑا کر مسلمانوں کے ایک فرد کو کم کر رہا ہے، مزید برآں کہ اُسکی وجہ سے دوسروں کا بھی نقصان ہوتا ہے؛کیونکہ دشمن پھر ایک کے بدلے ایک نہیں بلکہ بسا اوقات پوری قوم کو بھی تباہ کرسکتا ہے؛ اسی طرح ایک خود کش حملہ جسکی وجہ سے دس یا بیس یا تیس یہودی قتل ہوں اسکی وجہ سے مسلمانوں کو انتہائی شدید تنگی کا سامنا کرنا پڑتا ہےاور سنگین نقصان ہوتاہے، جیسے کہ آج فلسطینیوں کا یہود کے ساتھ معاملہ [ہمارے سامنے ]ہے۔

اور جو شخص اس کے بارے میں جواز کا قائل ہے، اسکی یہ بات بے بنیاد ہے، بلکہ اسکی یہ بات فاسد رائے پر قائم ہے؛ اس لئے کہ خود کش حملہ کے رد عمل میں حاصل ہونیوالے نقصانات اسکے فوائد سے کہیں زیادہ ہیں، اور یہ براء بن مالک رضی اللہ عنہ کے واقعہ (جنگ یمامہ کے موقع پر انہوں اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ انہیں قلعے کی فصیل کے اندر پھینک دیں، تو وہ انکے لئے دروازہ کھول دینگے)کو دلیل بھی نہیں بنا سکتا،کیونکہ براء بن مالک کے واقعہ میں موت یقینی نہیں تھی، اسی لئے وہ ناصرف بچ بھی نکلے اور دروازہ کھولنےمیں بھی کامیاب رہے، جسکی بنا پر لوگ قلعہ میں داخل ہوئے”

ماخوذ از: “مجموع فتاوى ورسائل عثيمين” (25/ 358)

بلکہ انہوں نےایک بار مجلہ “الدعوۃ”کو فتوی دیتے ہوئے سنہ 1418 ہجری میں سوال کے جواب میں کہا تھا: “میرے مطابق اس نے خود کشی کی ہے، اور اسے جہنم میں اسی چیز کے ساتھ عذاب دیا جائے گا جس سے اس نے خود کشی کی، جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے۔۔۔۔”

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android