0 / 0
8,52724/10/2008

يورپى ممالك ميں جلاٹين وغيرہ جيسے پھيلے ہوئے كھانے

سوال: 210

بہت مدت سے ميں جس ماحول ميں رہ رہا ہوں ہمارے ہاں كھانے كے بارہ ميں بہت مشكلات ہيں مثلا جلاٹين، اور مونوجليسرائڈ، اور ڈيجليسرائڈ، اور پيپسين اور رنٹ، يہ سب اشياء ہمارے روزانہ كے كھانوں ميں شامل ہيں، حتى كہ اب ہمارے ليے يہ جاننا ممكن نہيں رہا كہ ہميں كيا كھانا ہے، اور ہر ايك قسم ميں كيا علت پائى جاتى ہے برائے مہربانى اس مشكل كو حل كرنے كے ليے تفصيلى جواب ديں.

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اللہ سبحانہ و تعالى نے اپنے بندوں پر انعام كرتے ہوئے زمين ميں جو كچھ اس سے رزق پيدا كيا، اور اپنے بندوں كے ليے حلال اور پاكيزہ اشياء مباح كيں، اور يہ پاكيزہ اور حلال اشياء بہت زيادہ ہيں جن كا شمار ہى نہيں.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اے لوگوں زمين ميں جو كچھ ہے اس سے حلال اور پاكيزہ اشياء كھاؤ، اور شيطان كى پيروى مت كرو، يقينا وہ تمہارے ليے واضح اور كھلا دشمن ہے البقرۃ ( 168 ).

اور اللہ عزوجل نے كئى محدد كھانے حرام كيے ہيں جيسا كہ درج ذيل فرمان بارى تعالى ميں ہے:

آپ كہہ ديجئے كہ جو احكام بذريعہ وحى ميرے پاس آئے ہيں ان ميں تو ميں كوئى حرام نہيں پاتا كسى كھانے والے كے ليے جو اس كو كھائے، مگر يہ كہ وہ مردار ہو يا كہ بہتا ہوا خون ہو يا خنزير كا گوشت ہو، كيونكہ وہ بالكل ناپاك ہے يا جو شرك كا ذريعہ ہو كہ غير اللہ كے ليے نامزد كر ديا گيا ہو، پھر جو شخص مجبور ہو جائے بشرطيكہ نہ تو طالب لذت ہو اور نہ ہى حد سے تجاوز كرنے والا تو واقعى آپ كا رب غفور الرحيم ہے الانعام ( 145 ).

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے درندوں ميں سے كچلى والے اور پرندوں ميں سے پنجوں سے شكار كرنے والا كھانے سے منع فرمايا ”

صحيح مسلم ( 6 / 60 ).

اور صحيح بخارى ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم گھريلو گدھوں كے گوشت سےمنع فرمايا ہے ”

صحيح بخارى حديث نمبر ( 4215 ).

ہمارے دور ميں موجود كھانوں ميں سے بعض تو واضح حرام ہيں، مثلا مردار، اور خنزير كا گوشت، اور بعض كھانوں ميں كچھ اشياء اور مواد حرام پائى جاتى ہيں اس كا حكم معلوم كرنے كے ليے اس مواد اور مركبات كى تفصيل تك پہنچنا ضرورى ہے.

سوال ميں جس جلاٹين كا ذكر كيا گيا ہو سكتا ہے يہ حرام جانور مثلا خنزير اور اس كے اجزاء كے چمڑے اور عضلات اور ہڈيوں سے بنائى گئى ہو، تو اس بنا يہ جلاٹين جو كولاجن سے تبديل كى گئى ہے جو اصل ميں خنزير سے حاصل ہوتى ہے يہ حرام ہے كيونكہ يہ بالكل خنزير كا نمك ميں تحويل ہو جانے كى طرح ہے، اور اس كى حرمت ہى راجح ہے، چاہے اس كو تحويل بھى كر ديا گيا ہے ليكن اس كى اصل تو خنزير حرام جيسى چيز ہى ہے.

اور كھانوں ميں جو تيل پائے جاتے ہيں اس ميں بھى تفصيل ہے، كيونكہ يا تو يہ تيل نباتات سے ہونگے يا پھر حيوان سے.

اگر تو نباتات سے ہيں تو ايك شرط كے ساتھ حلال ہيں كہ يہ كسى نجس چيز سے مخلوط نہ ہوں، اور اگر حيوان سے ہوں تو پھر يا يہ جس جانور كا گوشت كھايا جاتا ہے اس سے ہو يا پھر جس كا گوشت نہيں كھايا جاتا اس سے نكلا ہو.

اگر تو يہ تيل گوشت كھائے جانے والے جانور كا ہے تو اس كا حكم بھى اس جانور كے گوشت كے حكم كى طرح ہے.

اور اگر يہ حرام جانور سے ہو مثلا خنزير تو يہ تيل يا تو كھانے ميں استعمال كيا گيا ہو يا پھر كھانے والى چيز كے علاوہ دوسرى اشياء ميں.

اگر تو كھانے كے علاوہ دوسرى اشياء ميں يہ تيل استعمال كيا گيا ہو مثلا جس طرح كہ اكثر صابون ميں خنزير كى چربى استعمال كى جاتى ہے تو اس كا حرام ہونا ہى راجح ہے.

ليكن اگر يہ چربى اور تيل كھانے والى اشياء ميں استعمال كيا گيا ہو جس طرح كہ خنزير كى چربى اكثر چاكليٹ اور گوليوں ٹافيوں ميں استعمال كى جاتى ہے تو يہ حرام ہونگى.

اور رہا پنير تو اس كے متعلق عرض يہ ہے كہ اگر يہ پنير ايسے حيوان كے دودھ سے بنايا گيا ہو جسے كھانا جائز نہيں تو بالاجماع اس كا پنير كھانا جائز نہيں.

اور اگر وہ پنير كسى كھانے والے جانور كے دودھ سے بنا ہو، اور يہ شرعى ذبح كيے جانے والے جانور كے پيٹ سے نكالے گئے زرد مادہ سے بنے اور اس ميں كوئى نجاست نہ ملى ہو تو اسے كھايا جائيگا.

اور اگر يہ كسى مردار كے پيٹ سے زرد مادہ نكال كر بنايا جائے تو اسے كھانے ميں اختلاف ہے، ليكن راجح يہى ہے كہ نہ كھايا جائے.

ليكن اگر نجس نفح يعنى جانور كے پيٹ سے زرد مادہ نكال كر بنايا گيا ہو مثلا خنزير وغيرہ سے تو يہ نہيں كھايا جائيگا.

ديكھيں: احكام الاطعمۃ فى الشريعۃ الاسلاميۃ تاليف الطريفى ( 482 ).

اور بہت سارے حالات ميں امور مخفى اور مسلمان كے ليے مشتبہ رہ جاتے ہيں تو يہاں تقوى اور ورع يہى ہے كہ شبہات كو ترك كر دينا ہى اس طرح كے حالات ميں بہتر ہے، جيسا كہ درج ذيل حديث ميں آيا ہے:

نعمان بن بشير رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو فرماتے ہوئے سنا: پھر نعمان رضى اللہ تعالى عنہ نے اپنى انگلياں اپنے كانوں كى طرف كيں:

” حلال بھى واضح ہے، اور حرام بھى واضح ہے، اور ان دونوں كے درميان مشتبہات ہيں، انہيں بہت سارے لوگ نہيں جانتے، چنانچہ جو شبہات سے بچ گيا تو اس نے اپنا دين بھى محفوظ كر ليا، اور اپنى عزت بھى، اور جو كوئى ان شبہات ميں پڑ گيا وہ حرام ميں پڑ گيا، بالكل اس چرواہے كى طرح جو كسى چراگاہ كے گرد چرا رہا ہو تو شك ہے كہ جانور اس ميں بھى چر جائينگے، خبردار ہر بادشاہ كے ليے ايك مخصوص زمين كا حصہ ہوتا ہے اور اللہ تعالى كا مخصوص حصہ اس كى حرام كردہ اشياء ہيں، خبردار جسم ميں ايك ٹكڑا ايسا ہے جب وہ صحيح ہو جائے تو سارا جسم صحيح رہتا ہے، اور جب وہ خراب ہو جائے تو سارا جسم ہى خراب ہو جاتا ہے، اور وہ دل ہے ”

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1599 ).

اس سے يہ علم ہوا كہ كھانے پينے والى اشياء ميں اصل حلال ہے، ليكن جس پر حرام كى دليل ثابت ہو جائے وہ حرام ہو گى، مثلا مردار اور خون، اور جو غير اللہ كے ليے ذبح كيا جائے، يا پھر جس پر بسم اللہ نہ پڑھى گئى ہو.

چنانچہ سوال ميں مذكورہ كھانے والى اشياء كے متعلق اگر تو يہ ثابت ہو جائے كہ اسے بنانے ميں كوئى حرام اشياء استعمال ہوئى ہے تو اسے كھانا جائز نہيں، اس سے اجتناب كيا جائے، ليكن اگر حرام اشياء استعمال نہيں ہوئى تو كھانا جائز ہے، اور اگر اس ميں شك ہو كہ كوئى حرام چيز استعمال ہوئى ہے ـ ليكن يہ بغير كسى وسوسہ كے ہو ـ تو ورع اور تقوى يہى ہے كہ اسے استعمال نہ كيا جائے.

واللہ اعلم .

ماخذ

الشیخ محمد صالح المنجد

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android