0 / 0
8,77820/11/2006

كيا جلدى بيمارى ( الرجى ) ميں مبتلا شخص تيمم كر سكتا ہے ؟

سوال: 20935

ميں جلدى بيمارى ( الرجى ) كا شكار ہوں، اس كا علاج نہيں ہو سكا حتى كہ ميں صرف دن ميں پانچ بار وضوء كرتا ہوں، ميں نے ہر قسم كى كوشش كى ہے ليكن كوئى فائدہ نہيں ہوا، اگر وضوء كرنے ميں مجھے الرجى ہو اور حالت برى ہو جائے تو مجھے كيا كرنا چاہيے ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اللہ تعالى كسى بھى جان كو اس كى استطاعت سے زيادہ مكلف نہيں كرتا البقرۃ ( 286 ).

اور حديث ميں ہے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" … چنانچہ جب ميں تمہيں كسى چيز سے منع كروں تو اس سے اجتناب كرو اور جب تمہيں كوئى كام كرنے كا حكم دوں تو اپنى استطاعت كے مطابق اس پر عمل كرو "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 6858 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1337 ).

وضوء كے سلسلے ميں اللہ تعالى كے واضح حكم كے باوجود كہ وضوء كرنا فرض ہے، ليكن اس سے بيمار شخص كو پانى كے ساتھ وضوء كرنے سے مستثنى كرتے ہوئے اس كے ليے تيمم مقرر كيا ہے.

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اے ايمان والو تم نشہ ميں مست ہو تو نماز كے قريب بھى نہ جاؤ، جب تك كہ اپنى بات كو سمجھنے نہ لگو، اور جنابت كى حالت ميں جب تك كہ غسل نہ كر لو، ہاں اگر راہ چلتے گزر جانے والے ہو تو اور بات ہے، اور اگر تم مريض ہو يا سفر ميں، يا تم ميں سے كوئى قضائے حاجت سے آيا ہو، يا تم نے عورتوں سے مباشرت كى ہو اور تمہيں پانى نہ ملے تو پاك مٹى سے تيمم كرو، اور اس سے اپنے منہ اور اپنے ہاتھوں پر مسح كرو، بلا شبہ اللہ تعالى معاف كرنے والا اور بخشنے والا ہے النساء ( 43 ).

شيخ محمد بن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

قولہ: يا اس كے استعمال كرنے يا تلاش كرنے ميں بدن كو ضرر كا خدشہ ہو "

اگر پانى كے استعمال سے بدن كو ضرر اور نقصان ہو تو وہ مريض ہے، چنانچہ وہ اللہ تعالى كے درج ذيل فرمان كے عموم ميں داخل ہوگا:

اور اگر تم مريض ہو يا مسافر المائدۃ ( 6 ).

جس طرح كہ اگر كسى كا وضوء والا عضوء زخمى ہو، يا اس كے سارے بدن پر پھنسياں اور زخم ہوں اور غسل كرنے سے ضرر كا خدشہ ہو تو وہ تيمم كرےگا.

ديكھيں: الشرح الممتع ( 1 / 378 ) طبع ابن الجوزى.

اور اگر پانى لگانے سے اس كى جلد متاثر نہيں ہوتى تو پھر اسے وضوء كرنا ہوگا، اس ميں ملنے يا پھر دھونے ميں مبالغہ كرنے كى شرط نہيں.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

اور اگر اس كے ناك ميں غدود ہوں تو وہ ناك ميں پانى چڑھانے ميں مبالغہ سے كام نہ لے، كيونكہ ہو سكتا ہے مبالغہ كرنے سے ان ميں پانى ٹھر جائے اور پھر تعفن پيدا ہو كر گندى بدبو آنے لگے، جس سے اسے مرض لاحق ہو يا پھر اس سے ضرر ہو.

تو اس طرح كے شخص كو كہا جائيگا كہ آپ اپنى ناك كے سوراخوں ميں داخل كريں صرف يہى كافى ہے "

ديكھيں: الشرح الممتع ( 1 / 210 ).

اور شيخ كا يہ بھى كہنا ہے:

اور جب انسان كے ناك ميں پھٹاؤ يا تھيلياں ہواور اگر وہ ناك ميں پانى چڑھانے ميں مبالغہ كرے تو اس پھٹاؤ اور تھيلى ميں پانى ٹھر جائے اور اسے تكليف دے، يا پھر پانى خراب ہو كر پيپ وغيرہ بن جائے، تو اس حالت ميں ہم اسے كہينگے: اپنے آپ سے ضرر اور نقصان كو ختم كرنے كے ليے مبالغہ مت كرو"

ديكھيں: الشرح الممتع ( 1 / 172 ).

چنانچہ اگر وضوء كرنے ميں آپ كو تكليف ہے، يا پھر بيمارى سے شفايابى ميں تاخير كا باعث بنتا ہے تو آپ تيمم كر ليا كريں، اس ميں كوئى حرج نہيں.

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android