0 / 0
14,55214/05/2005

بتوں كوتوڑنا واجب ہے

سوال: 20894

كيا اسلام ميں بت شكني واجب ہے، اگرچہ وہ انساني اورترقي كےآثار ہي ہوں؟
اور جب صحابہ كرام نے ملكوں كو فتح كيا توانہوں نےوہاں بت اور مجسمے ديكھنے كے باوجود كيوں نہ توڑے ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

شرعي دلائل سے بتوں كےاندام كا ثبوت ملتا ہے جس ميں چند ايك دلائل كا ذيل ميں ذكر كيا جاتا ہے:

1 ـ امام مسلم رحمہ اللہ تعالي نے ابوالھياج اسدى رحمہ اللہ تعالي سے روايت كيا ہے وہ بيان كرتےہيں كہ مجھے على بن ابى طالب رضي اللہ تعالى عنہ نے كہا:

كيا ميں تجھےاس كام كےلئےنہ بھيجوں جس كےلئے مجھے رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نےبھيجا تھا: كہ" تم جو مجسمہ بھي ديكھواسے مٹا ڈالو، اور جو قبر بھي اونچي ديكھو اسے ( زمين كے) برابر كردو. صحيح مسلم ( 969 ).

2 – امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نےہي عمرو بن عبسہ رضي اللہ تعالى عنہ سےبيان كيا ہے كہ انہوں نےنبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم سےكہا: اللہ تعالى نے آپ كو كس چيز كےساتھ مبعوث كيا ہے؟ تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

( مجھےصلہ رحمي كرنےاور بت توڑنے، اور اللہ تعالي كي وحدانيت بيان كرنےاوراس كےساتھ كوئي بھي شريك نہ ٹھرائےكي دعوت دينےكےلئےبھيجا گيا ہے ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 832 ) .

اوراگر اللہ تعالي كےعلاوہ ان بتوں كي عبادت كي جاتي ہو تو پھر ان كا توڑنا اورزيادہ متاكد اورضروري ہوجاتا ہے.

3 – امام بخاري اور مسلم رحمہما اللہ تعالي نے جرير بن عبداللہ بجلى رضي اللہ تعالى عنہ سےحديث بيان كي ہے وہ بيان كرتےہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نےمجھے فرمايا:

( اے جرير كيا تم مجھے ذى الخلصہ سے راحت اور آرام نہيں پہنچاتے، ذي الخلصہ حثعم قبيلہ كا ايك گھر تھا جسے يمني كعبہ كہا جاتا تھا، تو وہ بيان كرتےہيں كہ ميں ايك سو پچاس گھڑ سوار لےكر گيا اورميں گھوڑے پر نہيں بيٹھ سكتا تھا توميں نےاس كا نبي صلى اللہ عليہ وسلم سےذكر كيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ميرے سينےميں ہاتھ مارا اور كہنےلگے: اے اللہ اسے گھوڑے پر ثابت كر اوراسے ہدايت كي راہنمائي كرنےوالا اور ہدايت يافتہ بنا دے

وہ بيان كرتےہيں كہ ميں گيا اوراسے آگ سےجلاديا، پھر جرير رضي اللہ تعالى عنہ نے ايك شخص جس كي كنيت ابوارطاۃ تھي كو نبي صلى اللہ عليہ وسلم كو خوشخبري دينے كےلئےروانہ كيا تو وہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آيا اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كوبتايا كہ ميں آپ كےپاس اس وقت آيا ہوں جب ہم نےاسےايك خارش زدہ اونٹ كي طرح كر كےچھوڑا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نےپانچ بار ان گھوڑوں اورسواروں كےلئےبركت كي دعافرمائي ) صحيح بخاري حديث نمبر ( 3020 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2476 ).

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالي كہتےہيں:

اس حديث ميں ہر اس چيزكو جو انسان كو فتنے ميں ڈالے چاہے وہ انسان ہو يا حيوان يا پھر عمارت يا كوئي جمادات وغيرہ ميں سےاسےختم اور زائل كرنے كي مشروعيت پائي جاتي ہے. اھ .

4 – اور نبي كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے خالد بن وليد رضي اللہ تعالى عنہ كو ايك لشكر دےكر عزى كا بت منہدم كرنےكےلئےروانہ كيا .

5 – اورسعد بن زرارہ رضي اللہ تعالى عنہ كو مجاہدين كي ايك جماعت دےكر مناۃ كا بت گرانےكےلئےروانہ كيا.

6 – اور عمروبن عاص رضي اللہ تعالى عنہ ايك لشكر دےكر سواع كا بت گرانےكي مہم پر روانہ فرمايا، اوريہ سب كچھ فتح مكہ كےبعد كيا.

ديكھيں: البدايۃ والنھايۃ ( 4 / 712 – 776، 5 / 83 ) اور السيرۃ النبويۃ تاليف ڈاكٹر على الصلابي ( 2 / 1186 ) .

امام نووى رحمہ اللہ تعالى مسلم كي شرح ميں تصوير كےمسئلہ ميں كلام كرتےہوئےكہتےہيں:

اور علماء كرام اس پر مجتع ہيں كہ جس كا سايہ ہو اس كي تصوير منع ہے اوراس كا بدلنا واجب ہے. اھ

اور تصاوير ميں جس كا سايہ ہوتا ہے وہ مجسم تصاوير جس طرح كہ يہ مجسمے اوربت ہيں .

اور جويہ بات كي جاتي ہے كہ صحابہ كرام رضي اللہ تعالى عنھم نے مفتوحہ علاقوں ميں بت چھوڑ دئے تھے، تو يہ سب وہمي اورگمان كي باتيں ہيں، نبي كريم صلى اللہ عليہ وسلم كےصحابہ كرام كبھي بھي ان بتوں اور مجسموں كو چھوڑنےوالےنہيں تھے، اور خاص كرجب اس دور ميں ان كي عبادت كي جاتي تھي.

اور اگريہ كہا جائےكہ بت اور مجسمےتوبہت پرانےہيں جو كہ فرعونوں اور فنيقيوں وغيرہ كےمجسمےہيں توصحابہ كرام نےانہيں كيسےچھوڑديا؟

اس كا جواب يہ ہے: يہ بت تين وجوہات سےخارج نہيں ہوسكتے:

اول:

يہ بت كسي دور دراز جگہ ميں ہوں جہاں صحابہ كرام پہنچےہي نہيں، صحابہ كرام كا مصر كو فتح كرنےكا مطلب يہ نہيں كہ وہ مصر كےہر علاقے ميں پہنچے تھے.

دوم:

يہ بت ظاہر نہ ہوں، بلكہ فراعنہ وغيرہ كےگھروں ميں ہوں، نبي كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا طريقہ يہ تھا كہ جب ظالموں اور عذاب كردہ علاقوں سے گزرتےتوتيزي سے گزر جاتےبلكہ ان جگہوں ميں داخل ہونے كي ممانعت آئي ہے.

صحيحن ميں حديث ہے كہ : نبي صلى اللہ عليہ وسلم نےفرمايا:

" ان عذاب كردہ لوگوں ( كےعلاقہ ميں نہ جاؤ ليكن روتےہوئے، خدشہ ہے كہ تمہيں بھي وہي نہ پہنچ جائےجوانہيں پہنچا تھا "

نبي كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہ اس وقت فرمايا تھا جب ثموديوں كےعلاقہ مدائن صالح ميں اصحاب حجر كےپاس سےگزر رہے تھے.

اور صحيحين ہي كي ايك روايت ميں ہے كہ: " اگر تم رونےوالے نہيں تو پھر اس علاقےميں نہ داخل ہو، اس خدشہ كےپيش نظر كہ كہيں تمہيں بھي وہي نہ پہنچ جائےجو انہيں پہنچا تھا"

اور نبي كريم صلى اللہ عليہ وسلم كےصحابہ كرام كےمتعلق ہمارا گمان ہے كہ اگر انہوں نے كوئي عبادت گاہ يا ان كا كوئي گھر ديكھا ہو تو وہاں داخل ہي نہيں ہوئے، اوراس ميں جو كچھ تھا اسےديكھا تك نہيں.

اہرام اور اس ميں جوكچھ ہےاس كےمتعلق جو اشكال پيدا ہوتا ہےاس بنا پريہ اشكال زائل اور ختم ہوجاتا ہے، اوراس كےساتھ يہ بھي احتمال ہے كہ اس وقت اس كےدروازے اور اندر داخل ہونے كي راستےريت ميں مدفون ہوں اور نظر ہي نہ آتےہوں.

سوم:

آج جو بت ظاہر ہيں ان ميں سےاكثر ريت ميں مدفوں يا پھر يہ پھر يہ حال ہي ميں مليں ہوں، يا كسي دور دراز مقام سےلائےگئےہوں جہاں صحابہ كرام رضي اللہ تعالي عنہ نہ پہنچےہوں.

زركلي سے ان اہراموں اور ابوالہول وغيرہ كےبارہ ميں سوال كيا گيا كہ كيا انہيں مصر ميں داخل ہونے والے صحابہ كرام رضي اللہ تعالي عنہم نے ديكھا تھا؟

توانہوں نےكہا: ان كي اكثريت اور خاص كر ابوالہول ريت ميں مدفون تھا.

ديكھيں: شبہ الجزيرۃ العرب ( 4 / 1188 ) .

پھر يہ بھي ہے كہ اگر فرض كرليا جائےكہ يہ بت ريت ميں دفن نہيں تھے، توپھر اس كا ثبوت ہونا ضروري ہےكہ صحابہ كرام نےانہيں ديكھا تھااور وہ انہيں منہدم كرنےپر قادر تھے.

اور واقع اس بات كا شاہد ہے كہ صحابہ كرام رضي اللہ تعالي عنہ ان ميں سے بعض مجسموں كو منہدم كرنے سےعاجز تھے، اور ان ميں بعض كو مندم كرنے ميں بيس يوم صرف ہوئے، باوجود اس كےكہ صحابہ كرام كےدور ميں يہ آلات اورمشينيں اوربارود اور دسرے وسائل موجود نہيں تھے جنہيں اس كے انہدام ميں استعمال كيا گيا اوربيس يوم صرف ہوئے.

اس كي دليل يہ ہے كہ ابن خلدون نےمقدمہ ميں ذكر كيا ہے كہ:

خليفہ الرشيد نے كسرى كا ايوان مندم كرنےكا عزم كيا اور اس كا كام شروع كرنےكےلئے لوگ تيار كئےاوركلہاڑياں تيار كيں اوراسے آگ سےسرخ كيا اوراس پر سركہ بہايا حتي كہ وہ اس سےعاجز آگيا، اورخليفہ مامون نے اہرام مصر منہدم كرنے كا ارادہ كيا اوراس كي تياري بھي كرلي ليكن وہ ايسا نہ كرسك. ديكھيں: المقدمۃ لابن خلدون صفحہ ( 383 )

اور يہ تعليل پيش كرني كہ يہ مجسمےانساني ورثہ ميں سے ہيں، يہ ايسي كلام ہے جس كي طرف دھيان نہيں ديا جاسكتا، كيونكہ لات اور عزى اور ہبل ومناۃ وغيرہ دوسرے بت قريش اورجزيرہ وغير جوان كي عبادت كرتے تھے ان كا ورثہ تھا.

يہ ہے تو ورثہ ليكن محرم ورثہ ہے جس كا زائل اور ختم كرنا واجب ہے، اور جب اللہ تعالي اور اس كےرسول صلى اللہ عليہ وسلم كا حكم آجائے تومومن آدمي اس كى پيروي اوراتباع كرنے ميں جلدي كرتا ہے، اور اس طرح كي بےہودہ دليلوں سے اللہ تعالي اور اس كےرسول صلى اللہ عليہ وسلم كا حكم رد نہيں كيا جاسكتا.

فرمان باري تعالى ہے:

ايمان والوں كا قول تو يہ ہے كہ جب انہيں اس لئے بلايا جاتا ہے كہ اللہ تعالى اور اس كا رسول صلى اللہ عليہ وسلم ان ميں فيصلہ كردے تو وہ كہتےہيں ہم نے سنا اوراطاعت كي اور مان ليا يہي لوگ كامياب ہونے والے ہيںالنور ( 51 ).

ہم اللہ تعالى سے دعا كرتےہيں كہ وہ سب مسلمانوں كو ايسےكام كرنےكي توفيق عطا فرمائے جنہيں وہ پسند كرتا اورجن سےراضي ہوتاہے.

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android