میرے والد کی شہریت شام کی ہے، اور والدہ کی متحدہ عرب امارات کی، ہم امارات ہی میں مقیم ہیں، امارات کی حکومت اماراتی مطلقہ خاتون کو سہولیات پیش کرتی ہے، اور مکان کی تعمیر کیلئے آسان قسطوں پر قرض بھی دیتی ہے، چنانچہ اگر میرا والد میری والدہ کو عدالت میں جاکر طلاق کی نیت کے بغیر صرف معاشی سہولیات اور مکان کی تعمیر کیلئے قرضہ کے حصول کی خاطر طلاق دے دےتو کیا یہ حلال ہے؟ اس لئے کہ ہمارا بہت بڑا خاندان ہے، میرے والد کی دو بیویاں ہیں اور ہم 20 افراد ہیں میرے والد کی نیت طلاق کی نہیں ہے بلکہ سہولیات کا حصول مقصود ہے، اگر اس انداز سے طلاق دینا حلال نہ ہوگا تو ہمارے لئے مکان کے حصول کی خاطر میرے والد کو قربانی دینی پڑے گی اور وہ حقیقت میں طلاق دے دیگا، کیونکہ زندگی بہت تنگی میں گزر رہی ہے۔ آپکا شکریہ اور آپکے تفصیلی جواب کا انتظار رہے گا
عدالت میں جاکر جعلی طلاق دینا تاکہ حکومت کی جانب سے بیوی کو معاشی سہولیات مل سکیں
سوال: 171398
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
اللہ تعالی نے عقدِ نکاح ختم کرنے کیلئے طلاق کی اجازت دی ہے، جبکہ عقدِ نکاح بہت ہی مضبوط معاہدہ ہوتا ہے، جیسے کہ اللہ تعالی نے فرمایا: ( وَأَخَذْنَ مِنْكُمْ مِيثَاقًا غَلِيظًا )”ترجمہ: اور انہوں نے تم سے پختہ عہد لے لیا ہے”سورہ النساء/21
چنانچہ کسی شخص کیلئے یہ جائز نہیں کہ وہ مذکورہ ہدف کے علاوہ کسی اور ہدف کیلئے طلاق کا استعمال کرے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتےہیں:
“صاحب شریعت نے آیاتِ الہی کو کھیل تماشا بنانے سے روکا ہے، اسی لئے نکاح میں صرف شرعی مقاصد کے حصول کیلئے بات کرنے کی اجازت دی گئی ، اور عقد نکاح کو بطورِ ڈھال استعمال یا مذاق کا نشانہ بنانے سے روکا گیا، بالکل اسی طرح حلالہ سے بھی منع فرمایا، ان سب کی دلیل فرمانِ باری تعالی : ( ولا تتخذوا آيات الله هزوا ) ترجمہ: “اور اللہ تعالی کی آیات کا مذاق مت اڑاؤ”سورہ بقرہ/231۔
اسی طرح فرمانِ رسالت (لوگوں کو کیا ہوگیا ہے !کہ حدود اللہ کو انہوں نے کھیل تماشا بنا لیا ہے! اور اسکی آیات کا مذاق بھی اڑاتے ہیں! [اور کہتے پھرتے ہیں]تجھے طلاق دی اور رجوع کیا، تجھے طلاق دی اور رجوع کیا) [الحدیث]چنانچہ ان دلائل سے معلوم ہوا کہ اس[نکاح]کو تماشا بنانا حرام ہے”
ماخوذ از: ” الفتاوى الكبرى ” ( 6 / 65 )
مذکورہ بالا حدیث ابن ماجہ (2017) میں ہے جسے بوصیری نے زوائد میں حسن کہا ہے، اور البانی نے ضعیف سنن ابن ماجہ میں اسے ضعیف قرار دیا ہے۔
چنانچہ آپکے والد صرف ظاہری طور پر طلاق نہیں دے سکتے کہ حقیقت میں طلاق دینا مقصود ہی نہیں ہے۔
[دوسری وجہ ]یہ بھی ہے کہ مذکورہ صورت میں ناجائز طریقے سے مال ہڑپ کرنے کی حیلہ بازی بھی ہے، کیونکہ حکومت کی طرف سے یہ سہولیات حقیقی مطلقہ کو ہی دی جاتی ہیں، جس کے لئے حیلہ بازی کرنا حرام ہے۔
دوم:
اگر طلاق کے صریح لفظ کے ساتھ طلاق دی جائے مثلا کوئی کہے:”تم مطلقہ ہو” یا “تمہیں طلاق” یا پھر “میں طلاق دیتا ہوں” وغیرہ تو طلاق ہوجائے گی چاہے اسکی طلاق دینے کی نیت نہ ہو۔
اور اگر زبان سے تلفظ کے بغیر صرف تحریری شکل میں طلاق ہو تو اصل یہی ہے کہ طلاق نیت سے ہی ہوگی، لیکن اگر تحریری طلاق عدالت میں جاکر ہو تو کچھ اہل علم کہتے ہیں کہ چاہے نیت نہ بھی ہو طلاق ہوجائے گی ۔
مزید تفصیل کیلئے سوال نمبر (72291) اور (125215) اور (126378)بھی ملاحظہ کریں۔
اور اگر آپکے والد خرچہ برداشت نہیں کرسکتے اور یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ حقیقی طور پر اپنی بیوی کو طلاق دے دے تا کہ بیوی بچوں کو سہولیات مل سکیں تو یہ انکی مرضی ہے، لیکن خیال رہے کہ طلاق دینے کی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان وراثت وغیرہ سب ختم ہوجائی گی۔
اور [ہماری ]نصیحت یہ ہے کہ معاشی مسائل حل کرنے کیلئے کسی اور راستہ کو تلاش کرے، تو یہ طلاق سے بہتر ہے، اللہ تعالی سے بہت امید ہے کہ اللہ تعالی ان کیلئے آسانی اور تنگی سے نکلنے کا راستہ مہیا فرما دے۔
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات