0 / 0
3,69026/08/2012

مہر كى ادائيگى بيوى كے ذمہ والى شادى كا حكم

سوال: 150813

ميرے ملك ميں لوگ اپنى بيٹى كے ساتھ رشتہ كرنے والے شخص كو مہر ادا كرتے ہيں، ليكن ميرے ليے مہر ادا كيے بغير اپنى بہن كى شادى كرنا ممكن نہيں، ميں نے پچھلے دو برس سے كوشش كى كہ كوئى ايسا شخص مل جائے جو مہر ليے بغير ميرى بہن سے شادى كرے ليكن كامياب نہيں ہو سكا، كيا مہر مطلب كرنے والے شخص كے ساتھ اپنى بہن كى شادى كرنا حرام نہيں ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

الحمدللہ:

مہر كى ادائيگىخاوند پر بيوى كا حق ہے، يہ مہر خاوند اپنى بيوى كو ادا كريگا نہ كہ بيوى اپنےخاوند كو، كتاب و سنت اور اجماع امت ميں اس كے بہت دلائل پائے جاتے ہيں جن ميں سےچند ايك ذيل ميں پيش كيے جاتے ہيں:

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اور تم عورتوںكو ان كےمہر راضى خوشى ادا كرو، اگر وہ عورتيں اپنى مرضى سے مہر كا كچھ حصہ تمہيںہبہ كر ديں تو پھر تم اسے ہنسى خوشى كھاؤ النساء ( 4 ).

امام طبرى رحمہاللہ اس آيت كى تفسير ميں رقمطراز ہيں:

اللہ سبحانہ وتعالى كے اسے بيان كرنے كا معنى يہ ہے كہ تم عورتوں كو ان كے مہر ادا كرو يہ عطيہواجب اور فرض اور لازم ہے ” انتہى

مزيد تفصيل كےليے آپ سوال نمبر ( 45527 ) كے جواب كامطالعہ ضرور كريں.

خاوند كے ليے يہشرط لگانا جائز نہيں كہ وہ اپنى بيوى كا مہر بيوى يا اس كے ولى سے حاصل كريگا،بلكہ ايسى شرط لگانا باطل طريقہ سے مال كھانا اور ہڑپ كرنا كہلائيگا.

اور اگر خاوندايسى كوئى شرط لگائے اور نكاح ہو جائے تو جمہور اہل علم كے ہاں يہ نكاح صحيح ہوگا،اور خاوند كچھ نہ كچھ مہر ضرور ادا كريگا، چاہے وہ فورى طور پر ادا كرے يا بعدميں، اور اسے مہر نہ دينے كى شرط لگانے سے اجتناب كرنا چاہيے، كيونكہ بعض اہل علمكے ہاں اس صورت ميں نكاح صحيح نہيں ہوگا، اور اگر نكاح كے وقت خاوند خاموش رہے اورمہر مقرر نہ كرے تو پھر عورت كو مہر مثل ادا كيا جائيگا.

مزيد تفصيل كےليے آپ المحلى ابن حزم ( 50 ) اور المغنى ابن قدامۃ ( 7 / 72 ) كا مطالعہكريں.

ذيل ميں ہم ايسىشرط لگانے كى حرمت اور شرعى مخالفت ہونے كے متعلق علماء كرام كى كلام نقل كرتےہيں:

ابن ابى شيبہ رحمہاللہ نے اپنى كتاب مصنف ابن ابى شيبۃ ميں يحيى بن بشير سے روايت كيا ہے كہ:

1 ـ على رضى اللہتعالى عنہ نے ايك ايسى عورت كے متعلق فتوى ديا جس نے ايسے شخص سے شادى كى جس نےشرط ركھى تھى كہ بيوى مہر ادا كريگى اور عليحدگى اور طلاق كا مسئلہ بھى بيوى كےہاتھ ميں ہوگا، اور جماع و مباشرت بھى بيوى كے ہاتھ ہوگى.

تو علي رضى اللہتعالى اس شخص سے كہنے لگے: تو نے سنت كى مخالفت كى اور معاملہ كو اس كے سپرد كياجو اس كى اہليت ہى نہيں ركھتا، آپ كو مہر ادا كرنا ہوگى، اور جماع و عليحدگى اورطلاق تيرے ہاتھ ميں ہے كيونكہ سنت يہى ہے.

اور ابن ابى شيبہنے حسن سے بھى روايت كيا ہے كہ:

” عورتوں كاحق نہيں كہ وہ مردوں كو مہر ادا كرتى پھريں “

ديكھيں: مصنف ابنابى شيبۃ ( 3 / 427 ).

2 ـ رابطہ عالماسلامى كے ادارہ اسلامى فقہ اكيڈمى ( 15 / 10 / 1425 الموافق 28 / 11 / 2004 ) لڑكى والوں كالڑكے كو رقم اور جہيز ادا كرنے كے فيصلہ ميں درج ہے:

و حدہو الصلاۃ و السلام على من لا نبى بعدہ:

و بعد: اسلافىفقہ اكيڈمى نے عبد القادر ہندى كے ليٹر كا ترجمہ ديكھا جس ميں ان كا اپنے معاشرہميں لڑكى والوں كا لڑكے كو شادى كے بدلے رقم ادا كرنے والى رسم جہيز كے خلاف آوازاٹھانے كا ذكر كيا گيا ہے، وہ كہتے ہيں كہ انڈين مسلمان نكاح فارم ميں مہر لكھواتو ديتے ہيں ليكن بيوى كو ادا كچھ نہيں كيا جاتا…

اس بارہ ميںاكيڈمى كے فيصلہ ميں درج ہے:

دوم:

اكيڈمى متنبہكرتى ہے كہ اگرچہ يہ شادى اس اعتبار سے شرعى شادى كے مخالف ہے، ليكن يہ شادى صحيحہے اور جمہور علماء كرام كے ہاں اسے معتبر شمار كيا جائيگا، صرف چند ايك علماءكرام نے اس شادى كو مہر نہ دينے كى شرط ہونے كى حالت ميں صحيح تسليم نہيں كيا.

ليكن ايسى شادىسے پيدا ہونے والى اولاد شرعى ہوگى اور وہ اپنے ماں باپ كى طرف منسوب كى جائيگى،علماء كرام كے اجماع كے مطابق يہ نسبت شرعى اور صحيح ہے، حتى كہ ان علماء كے ہاںبھى جو اس نكاح كو صحيح تسليم نہيں بھى كرتے وہ بھى اسے شرعى نسبت تسليم كرتے ہيں،انہوں نے اپنى كتابوں ميں بيان كيا ہے كہ مذكورہ شادى سے پيدا شدہ اولاد كو ان كے ماںباپ كى طرف منسوب كيا جائيگا.

سوم:

اكيڈمى يہ فيصلہكرتى ہے كہ: يہ بہت برى عادت اور قبيح بدعت كتاب اللہ اور سنت رسول صلى اللہ عليہوسلم اور علماء كے اجماع كے مخالف ہے، اور اسى طرح سب زمانوں ميں مسلمانوں كے عملكے بھى خلاف ہے.

كتاب اللہ ميںاللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور تم عورتوںكو ان كے مہر راضى و خوشى ادا كرو النساء ( 4 ).

اور ايك دوسرےمقام پر ارشاد ربانى ہے:

تم پر كوئى گناہنہيں جب تم انہيں مہر ادا كر كے ان سے نكاح كر لو الممتحنۃ (10 ).

اور ايك مقام پراللہ رب العزت كا فرمان ہے:

اس ليے جن سے تمفائدہ اٹھاؤ انہيں ان كا مقرر كيا ہوا مہر ادا كر دو النساء ( 24 ).

اس كے علاوہ اور بہت سارى آيات ہيں، اور احاديثميں بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے فعل اور تقرير سے مہر كى مشروعيت ثابت ہے.

مسند احمد اورابو داود ميں جابر رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلمنے فرمايا:

” اگر كوئىشخص كسى عورت كو دونوں ہاتھ بھر كر غلہ مہر ميں دے تو وہ عورت اس كے ليے حلالہوگى.

يہ تو رسول كريمصلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے، اور رہا رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا اپنافعل تو صحيح مسلم وغيرہ دوسرى سنن كى كتابوں ميں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سےحديث مروى ہے وہ بيان كرتى ہيں كہ:

” رسول كريمصلى اللہ عليہ وسلم كى ازواج مطہرات كا مہر ساڑھے بارہ اوقيہ تھا “

يہ تو رسول كريمصلى اللہ عليہ وسلم كا فعل تھا، اور آپ كى تقرير كى دليل صحيح بخارى اور صحيح مسلمكى درج ذيل حديث ميں پائى جاتى ہے:

نبى كريم صلىاللہ عليہ وسلم نے عبد الرحمن بن عوف رضى اللہ تعالى عنہ كو ديكھا كہ ان كے لباسپر زرد رنگ كے نشانات ديكھےتو فرمايا: يہ كيا ؟

توانہوں نے جوابديا:ميں نے ايك عورت سے شادى كى ہے اور اسے كھجور كى ايك گٹھلي جتنا سونا مہر دياہے، چنانچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ ومسلم نے فرمايا: اللہ تعالى آپ كو بركت عطافرمائے “

يہ رسول كريم صلىاللہ عليہ وسلم كى تقرير ہے كہ آپ نے عبد الرحمن كو مہر دينے پر روكا نہيں، جو كہمسلمانوں كا اجماع اور الحمد للہ مسلمانوں كا ہر دور ميں ہر جگہ اس پر عمل بھى رہاہے.

اس بنا پر اكيڈمىكا يہ فيصلہ ہے كہ: خاوند اپنى بيوى كو مہر ضرور ادا كريگا چاہے وہ فورى طور پرادا كرے يا پھر بعد ميں، يا كچھ فورى طور پر ادا كر دے اور كچھ بعد ميں، ليكن بعدميں حقيقتا ادا كرنا ہوگا يہ نہيں كہ لكھا دے اور ادائيگى كا ارادہ ہى نہ ہو، بلكہجب آسانى ہو باقى مانندہ مہر ادا كرے.

مہر كے بغيرخاوند كا اپنى بيوى سے شادى كرنا حرام ہے اكيڈمى يہ نصحيت كرتى ہے كہ مہر كم ركھنااور اس ميں آسانى پيدا كرنا، اور نكاح ميں آسانى كرنا سنت ہے، اس ليے نكاح اورشادى كے اخراجات ميں كمى كرتے ہوئے زيادہ اخراجات سے احتراز كيا جائے اور فضولخرچى نہ كى جائے كيونكہ فضول خرچى ميں بہت سارے نقصانات ہيں.

چہارم:

اكيڈمى انڈياوغيرہكے علماء كرام اور ذمہ داران حضراتسے اپيل كرتى ہے وہ اس غلط اور برى عادت كے خلاف جنگ كريں، اور اسے اپنے ملك سےختم كرنے كى جدوجھد اور كوشش كريں كيونكہ يہ عادت آسمانى شريعت اور عقل سليم اورنظر مستقيم كى مخالف ہے.

پنجم:

يہ برى عادتشريعت مطہرہ كے مخالف ہونے كے ساتھ ساتھ عورتوں كے ليے بھى واضح نقصاندہ ہے، اسعادت كے ہوتے ہوئے تو نوجوان صرف اسى لڑكى سے شادى كريں گے جس كے گھر والے يا پھرلڑكى انہيں مہر ادا كريگى اور صرف مالدار لڑكيوں سے شادى كريں جس كے نتيجہ ميںغريب اور مسكين لڑكياں بغير شادى كے رہ جائيں گى، جس كے نقصانات كسى پر مخفى نہيںہيں.

اس طرح تو شادىمالى لالچ اور غرض بن كر رہ جائيگى اور اچھى اور دين والى لڑكى اور لڑكا اختياركرنے كى بنياد پر قائم نہيں رہے گى، جيسا كہ آج يورپى ممالك ميں ديكھا جا رہا ہےغريب لڑكى اپنى جوانى مال كمانے ميں ضائع كر ديتى ہے تا كہ وہ مال جمع كر كے مردوںكو اپنى طرف راغب كر كے شادى كر سكے.

ليكن دين اسلامنے تو عورت كو عزت و تكريم سے نوازا اور اسے گھر ميں ٹك كر رہنے كاحكم ديا ہے كہاس كے سارے اخراجات اور نان و نفقہ خاوند كےذمہ واجب كيا ہے، جو شخص عورت سے شادىكرنے كى رغبت ركھتا ہو وہ عورت كو مہر بھى ادا كريگا اور پھر اس كےسارے اخراجاتاور رہائش وغيرہ بھى مہيا كرنے كا پابند ہے.

اس طرح غريب ومسكين لڑكيوں كى شادى كا دروازہ بھى كھل گيا كيونكہ وہ تھوڑا سا مہر بھى قبول كرليتى ہيں اس طرح فقير اور غريب مردوں كے ليے بھى شادى ميں آسانى ہو جائيگى اورعورت سے شادى كرنے ميں كاميابى حاصل كريں گے.

اللہ سبحانہ وتعالى ہى توفيق نصيب كرنے والا ہے ” انتہى

3 ـانڈين اسلامى فقہ اكيڈمى كے فيصلہ نمبر ( 56 ) ( 5 / 13 ) ميں اسى برىعادت كے متعلق درج ذيل بيان آيا ہے:

” علماء ہنداور عرب ممالك كے علماء جو ندوہ كے اجلاس ميں شريك ہوئے وہ محسوس كرتے ہيں كہ شادىكے وقت عقد نكاح ميں جو مال بيوى يا اس كے اولياء سے طلب كرتا ہے اور يہاں يہ رواجبن چكا ہے اور خطرناك صورت حال اختيار كر چكا ہے كہ اس وقت نكاح بہت مشكل بن چكاہے حالانكہ شريعت اسلاميہ نے تو نكاح ميں آسانى پيدا كى تھى اور دين اسلام ميں سبسے عظيم بابركت بنايا تھا جسے آج بہت مشكل بنا ديا گيا ہے جسے حاصل كرنا جوئے شيرلانے كے مترادف ہے.

اس طرح بہت سارىبالغ لڑكياں جہيز نہ ہونے كے سبب شادى كے بغير جوانى گزار ديتى ہيں، جس كے معاشرےميں بہت برے نتائج پيدا ہو رہے ہيں اور اخلاق بگاڑ پيدا ہو رہا ہے جسے شمار ہىنہيں كيا جا سكتا، ان نتائج كو ديكھتے ہوئے ندوہ درج ذيل فيصلہ كرتا ہے:

اول:

نكاح ايك انسانىضرورت ہے، اور دين اسلام نے اسے آسان بنايا اور نكاح كرنے كى رغبت دلائى ہے، ليكنبہت سارے لوگوں نے شريعت اسلاميہ كى مخالفت كرتے ہوئے جہيز اور اسراف و فضول خرچى كےساتھ نكاح كو مشكل اور زيادہ اخراجات والا بنا كر ركھ ديا ہے جو كہ صريحا احكاماسلامى كى مخالفت ہے اور بہت بڑا گناہ ہے.

دوم:

اس وقت رائج جہيزقطعى طور پر حرام ہے، اور شريعت اسلاميہ ميں اس كى كوئى اجازت نہيں.

سوم:

دين اسلام نے نہتو بيوى اور نہ ہى اس كے اولياء پر كوئى خرچ اور بوجھ ڈالا ہے كہ شادى كے وقت وہخاوند كو كچھ ادا كرے، بلكہ بيوى كا مہر اور اس كا نان و نفقہ بھى خاوند كے ذمہواجب كيا ہے، اس ليے كسى بھى قسم كا بيوى اور اس كے اولياء پر مالى بوجھ ڈالناجائز نہيں.

چہارم:

مہر بيوى كا مالىحق ہے، اور خاوند كو جتنى جلد ہو سكے مہر كى ادائيگى كرنى چاہيے.

پنجم:

بيوى كو شادى كےوقت اس كے والدين اور رشتہ دار جو سامان اور اشياء ديتے ہيں يا خاوند كے رشتہداروں كى جانب سے اسے جو تحفے تحائف ديے جاتے ہيں وہ خالص بيوى كا مالى حق اورمليكت ہيں، خاوند يا اس كے گھر والوں كے ليے اسے اپنى ملكيت ميں لينا يا واپس لےلينے يا اسے استعمال كرنے كا كوئى حق نہيں، وہ بيوى كى مكمل رضامندى كے بغير اسےميں كوئى تصرف نہيں كر سكتے ” انتہى

آپ اس كى تفصيلدرج ذيل لنك ميں ديكھ سكتے ہيں:

http://ifa-india.org/arabic/qararat.html

حاصل يہ ہوا كہ:دين اسلام ميں حرام ہے كہ خاوند اپنى بيوى سے مہر كى ادائيگى كا مطالبہ كرے…ليكن اگر آپ كے ليے اس كے بغير اپنى بہن كى شادى كرنا ممكن نہ ہو تو آپ اس پرمجبور ہيں، ان شاء اللہ اس صورت ميں آپ پر كوئى گناہ نہيں ہوگا.

اللہ سبحانہ وتعالى سے دعا ہے كہ وہ مسلمانوں كو اچھى اور بہتر طرح دين كى طرف واپس لائے.

واللہ اعلم

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

answer

متعلقہ جوابات

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android