0 / 0
5,94524/11/2012

ماہوارى كى بنا پر يوم عاشوراء كا روزہ رہ جائے تو قضاء كى جائيگى يا نہيں ؟

سوال: 146212

اگر عورت نو اور دس اور گيارہ محرم كے ايام ميں ماہوارى كى حالت ميں ہو تو كيا غسل كرنے كے بعد اس كے ليے ان ايام كے روزوں كى قضا ميں روزے ركھنا جائز ہيں ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

جس كا بھى يوم عاشوراء كا روزہ رہ جائے تو وہ اس كى قضاء نہيں كريگا؛ كيونكہ اس كى قضاء كا ثبوت نہيں ملتا، اور اس ليے بھى كہ يوم عاشوراء كے روزے كا اجروثواب تو محرم كے مہينہ ميں انہيں ايام كے ساتھ ہے كسى اور يوم ميں نہيں.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:

اگر يوم عاشوراء كے ايام ميں كوئى عورت ماہوارى كى حالت ميں ہو تو كيا وہ اس كى قضاء كريگى ؟

اور كيا كوئى قاعدہ اور اصول ہے كہ كون سے نوافل كى قضاء ہوگى اور كس كى قضاء نہيں ہو گى ؟

اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے.

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

نوافل دو قسم كے ہيں:

ايك سبب والى ہے، اور دوسرى سبب كے بغير، جس كا كوئى سبب ہو تو وہ سبب فوت ہو جانے سے وہ خود بھى فوت ہو جائيگا اور اس كى قضاء نہيں كى جائيگى، اس كى مثال تحيۃ المسجد ہے، اگر كوئى شخص آئے اور بيٹھ جائے اور طويل مدت تك بيٹھا رہے اور پھر وہ تحيۃ المسجد كى دو ركعت ادا كرنا چاہے تو يہ تحيۃ المسجد نہيں ہونگى، كيونكہ يہ سبب والى نماز تھى، اور يہ سبب كے ساتھ مربوط ہے، اس ليے اگر سبب فوت ہو جائے تو اس كى مشروعيت بھى ختم ہو جائيگى.

اسى طرح ظاہر يہى ہوتا ہے كہ يوم عرفہ اور يوم عاشوراء بھى ايسے ہى ہے، اس ليے اگر يوم عرفہ اور يوم عاشوراء كا روزہ بغير كسى عذر مؤخر كر دے تو بلاشك اس كى قضاء نہيں كى جائيگى، اور اگر قضاء ميں روزہ ركھ بھى لے تو اسے كوئى فائدہ نہيں ہوگا، يعنى اسے يہ فائدہ نہيں ہوگا كہ اس نے يوم عرفہ اور يوم عاشوراء كا روزہ ركھا ہے.

اور اگر انسان پر يہ ايام آئيں اور وہ معذور ہو مثلا حائضہ اور نفاس والى عورت يا مريض اور مسافر، اور اس شخص كى عادت تھى كہ وہ ان ايام كے روزہ ركھا كرتا تھا، يا پھر اس دن روزہ ركھنے كى نيت تھى تو اسے نيت كا اجروثواب حاصل ہو جائيگا، اس كى دليل صحيح بخارى كى درج ذيل حديث ہے:

ابو موسى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جب بندہ بيمارى ہو جائے يا سفر ميں ہو تو اس كے ليے اسى طرح عمل لكھا جاتا ہے جب وہ مقيم اور صحيح و تندرست ہونے كى حالت ميں عمل كيا كرتا تھا "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 2996 ).

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" قولہ صلى اللہ عليہ وسلم:

" اس كے ليے اسى طرح عمل لكھا جاتا ہے جو وہ مقيم اور صحيح و تندرست ہونے كى حالت ميں كيا كرتا تھا "

يہ اس شخص كے حق ميں ہے جو اطاعت والا عمل كيا كرتا تھا، اور اس سے رك گيا اور اس كى نيت تھى كہ ( اگر مانع نہ ہوتا ) تو وہ اس پر مداومت كرتا " انتہے

ماخوذ از: فتح البارى.

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android