0 / 0
4,82414/04/2010

بيوى نے دھمكى دى كہ اگر خاوند نے اسے طلاق نہ دى تو وہ خود كشى كر لےگى لہذا خاوند نے طلاق دے دى تو كيا يہ مكرہ شمار ہوگا ؟

سوال: 140506

ايك رات ميرے اور خاوند كے مابين جھگڑا ہو گيا اور دوسرے دن صبح بھى رات كے جھگڑے سے ميں پريشان تھى تو پھر نئے سرے سے جھگڑا ہو گيا اور اسى پريشانى اور نفسياتى دباؤ كے تحت ميں نے خاوند سے طلاق كا مطالبہ كر ديا اور اسے دھمكى دى كہ اگر اس نے طلاق نہ دى تو ميں خود كشى كر لوں گى، ليكن اس نے كہا كہ ميں تمہيں طلاق نہيں دونگا كيونكہ خاوند مجھ سے محبت كرتا ہے.

ليكن ميں نے اصرار كيا اور اپنے سامنے چھرى ركھ لى پہلے بھى ايك بار ايسا ہى ہوا اور ميں نے اپنے آپ كو زخمى كر ليا تھى پھر مجھے ہاسپٹل بھى جانا پڑا يہ چار برس قبل كى بات ہے چنانچہ ميرا خاوند ڈر گيا كہ كہيں ميں پھر وہى كام نہ كر بيٹھوں تو پہلے كيا تھا، اس ليے خاوند نے مجبورا اور غصہ ميں تين بار طلاق كے الفاظ بول ديے.

مجھے علم نہيں كہ آيا يہ طلاق صحيح ہے يا نہيں ؟ اور كيا يہ صحيح ہے كہ حديث ميں آتا ہے كہ اگر غصہ كى حالت ميں طلاق دى جائے تو يہ طلاق واقع نہيں ہوتى ؟

اگر يہ بات صحيح ہے تو پھر اس كا معنى يہ ہوا كہ ہمارى شادى قائم ہے اور طلاق نہيں ہوئى، كيونكہ خاوند نے جو الفاظ كہے تھے وہ مكرہ اور مجبور ہو كر كہے تھے اور اس نے يہ قصدا نہيں كہے برائے مہربانى اس كى وضاحت كريں.

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اول:

ابن ماجہ رحمہ اللہ نے ابو ذر غفارى رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

” بلاشبہ اللہ تعالى نے ميرى امت سے خطا و نسيان اور جس پر انہيں مجبور كر ديا گيا ہو معاف كر ديا ہے ”

سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2043 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابن ماجہ ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

” يہ عظيم حديث ہے، بعض علماء كا كہنا ہے: اسے نصف اسلام شمار كرنا چاہيے، كيونكہ فعل يا تو قصدا اور اختيار كے ساتھ ہوتا ہے يا قصد و اختيار كے بغير، دوسرا وہ ہے جو خطا اور نسيان يا جبر كے ساتھ واقع ہو، تو يہ قسم بالاتفاق معاف ہے.

علماء كا اس ميں اختلاف ہے كہ كيا اس سے گناہ معاف ہے يا حكم يا كہ دونوں اكٹھے ؟ اور حديث سے ظاہر ہوتا ہے كہ آخرى چيز ہے، اور اس كے جو خارج ہے مثلا قتل تو اس كى عليحدہ دليل ہے ” انتہى

ديكھيں: فتح البارى ( 5 / 161 ).

اور شاطبى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

” جب عمل قصدا ہو تو اس كے ساتھ تكليفى احكام معلق ہوتے ہيں، اور جب يہ عمل قصد سے عارى اور خالى ہو تو اس سے كوئى چيز متعلق نہيں ہوتى ” انتہى

ديكھيں: الموافقات ( 3 / 9 ).

دوم:

امام بيہقى نے ” السنن الكبرى ” ميں ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت كيا ہے:

” مكرہ كى طلاق نہيں ہوتى ”

سنن الكبرى للبيھقى حديث نمبر ( 15499 ) ابن قيم رحمہ اللہ نے اعلام الموقعين ( 3 / 38 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور يہ على اور ابن زبير اور ابن عمر وغيرہ سلف رضى اللہ عنہم سے بھى مروى ہے.

ديكھيں: مصنف ابن ابى شيبۃ ( 5 / 48 – 49 ) سنن البيھقى ( 7 / 357 – 359 ) مصنف عبد الرزاق ( 6 / 407 – 411 ).

اور جمہور فقھاء كہتے ہيں كہ جب اكراہ شديد ہو تو مكرہ كى طلاق واقع نہيں ہوگى، مثلا قتل اور ہاتھ كاٹنا اور شديد قسم كا زدكوب كرنا وغيرہ، كيونكہ حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

” عقل پر پردہ پڑى ہوئى حالت ميں نہ تو طلاق ہے اور نہ ہى آزادى ”

اور اس ليے بھى كہ سابقہ حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

” يقينا اللہ سبحانہ و تعالى نے ميرى امت سے خطا و نسيان اور جس پر انہيں مجبور كر ديا گيا ہو معاف كر ديا ہے ”

اور اس ليے بھى كہ يہ ارادہ و قصد سے منعدم ہے يعنى اس ميں ارادہ و قصد نہيں پايا جاتا، تو بالكل مجنون اور پاگل اور سوئے ہوئے شخص كى طرح ہوا، چنانچہ اگر اكراہ ضعيف اور كمزور و قليل ہو يا مكرہ بہ سے عدم تاثر ثابت ہو جائے تو اختيار موجود ہونے كى بنا پر طلاق واقع ہو جائيگى.

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 29 / 17 – 18 ) اور الموسوعۃ الفقھيۃ ( 22 / 231 ) بھى ديكھيں.

اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

” مكرہ كى طلاق واقع نہيں ہوگى، اور اكراہ يا تو دھمكى سے حاصل ہوگا يا پھر اس كے ظن پر غالب ہو كہ وہ اسے اس كے نفس يا مال ميں نقصان دے گا بغير كسى دھمكى كے.

اور گمان و ظن پر غالب ہونے سے دھمكى ثابت ہو جائيگى يہ اچھا نہيں، بلكہ صحيح يہ ہے كہ اگر دونوں برابر ہوں تو يہ اكراہ ہوگا، ليكن اگر اسے دھمكى ديے جانے كا خدشہ ہو اور گمان پر غالب ہو كہ نہيں دےگا تو امام احمد كى كلام ميں يہ محتمل ہے اگر اس نے جبر كا ارادہ كيا اور طلاق دى تو يہ طلاق واقع ہو جائيگى ” انتہى

ديكھيں: الفتاوى الكبرى ( 5 / 489 – 490 ).

مستقل فتوى كميٹى كے علماء سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:

اس كے اور بيوى كے مابين غلط فہمى ہو گئى تو بيوى نے اپنے بہنوئى اور بہن كى موجودگى ميں خاوند كا حلق پكڑ ليا اور طلاق كا مطالبہ كرنے لگى تو خاوند نے مجبورا طلاق دے دى اور كہا طلاق طلاق ؟

كميٹى كے علماء كا جواب تھا:

” سائل نے بيان كيا ہے كہ اس نے بيوى كو مجبورا يعنى اكراہ كى حالت ميں طلاق دى، اور يہ اس وقت جب بيوى نے اس كا حلق پكڑ ليا، چنانچہ اگر تو اس كا ظن غالب تھا كہ بيوى مذاق نہيں كر رہى بلكہ حقيقت ميں نقصان دےگى اور اسے خدشہ ہوا كہ اس سے نقصان ہو سكتا ہے اور وہ اسے بيوى كے بات مانے بغير ختم نہيں كر سكتا يعنى اسے طلاق ديے بغير تو يہ اكراہ كى حالت ميں طلاق ہو گى.

ليكن اگر اس كا يہ فعل اكراہ كى حالت ميں نہيں پہنچتا وہ اس طرح كہ بغير كسى اذيت و تكليف كے اس سے چھٹكارا حاصل كيا جا سكتا تھا، ليكن اس كے باوجود خاوند نے بيوى كى بات مان كر اسے طلاق دى تو يہ طلاق واقع ہو گئى ہے ” انتہى مختصرا

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 20 / 42 – 43 ).

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كا كہنا ہے:

” طلاق اس وقت واقع ہوتى ہے جب انسان حقيقى ارادہ كرے اور اسے اپنے ہاتھ سے لكھ دے يا پھر طلاق كے ارادہ كے ساتھ زبان سے الفاظ كى ادائيگى كرے، نہ تو اس كى عقل ماؤف ہو اور نہ ہى وہ مكرہ و مجبور ہو تو اس كى طلاق واقع ہو جائيگى ” انتہى

ديكھيں: فتاوى نور على الدرب ( 10 / 359 ).

سوم:

جمہور علماء كہتے ہيں كہ جب مكرہ شخص كے ليے اپنے خون اور مال و عزت كى حفاظت كرتے ہوئے كوئى فعل يا كوئى قول كہنا جائز ہو تو اس كے ليے ايسا كرنا يا كہنا جائز ہے تا كہ وہ اپنے بھائى كے خون يا مال يا عزت كى حفاظت كر سكے.

امام بخارى رحمہ اللہ كا كہنا ہے:

” باب ہے جب كوئى شخص كسى شخص كے متعلق قتل وغيرہ كا خدشہ ركھے تو اس شخص كا قسم اٹھانا كہ وہ اس كا بھائى ہے اور اسى طرح ہر مكرہ شخص جو خوفزدہ ہو ت واس سے ظلم كو دور كيا جائے اور اس كے دفاع ميں لڑا جائے اور اسے ذليل نہ كيا جائے، اگر مظلوم كا دفاع كرتا ہوا لڑے تو اس پر نہ تو ديت ہے اور نہ ہى قصاص.

اور اگر اسے كہا جائے كہ يا تو تم شراب نوشى ضرور كرو يا پھر مردار كھاؤ، يا اپنے غلام كو فروخت كرو، يا قرض كا اقرار كرو، يا ہبہ كرو، يا عقد ختم كرو، يا پھر ہم تمہارے باپ يا اسلامى بھائى كو قتل كريں گے.

اس كے ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ قول كافى اور وسيع ہے:

” مسلمان مسلمان كا بھائى ہے “

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

” بن بطال كے قول كا خلاصہ يہ ہے:

امام بخارى كى مراد يہ ہے كہ جس كسى نے بھى كسى شخص كو دھمكى دى كہ اگر وہ معصيت و گناہ نہيں كريگا يا پھر اس كے ذمہ قرض نہ ہونے كے باوجود قرض كا اقرار نہ كرے ، يا پھر مرضى كے بغير كوئى چيز ہبہ نہ كرے، يا معاہد اور عقد ختم نہ كرے مثلا بغير اختيار كے طلاق دے يا غلام آزاد كرے تو اس كے والد يا پھر اسلامى بھائى كو قتل كر ديا جائيگا، تو اسے چاہيے كہ جس كى بھى اسے دھمكى دى گئى ہے وہ سب كچھ كر لے تا كہ اپنے باپ كو قتل ہونے سے بچا لے، اور اسى طرح اپنے مسلمان بھائى كو بھى ظلم سے بچائے ” انتہى

ديكھيں: فتح البارى ( 12 / 339 ).

اس بنا پر اگر خاوند ديكھتا ہے كہ بيوى اپنے آپ كو قتل كرنے ميں مذاق نہيں كر رہى تھى بلكہ وہ حقيقتا يہ كام كر دے گى اور خاص كر جب وہ پہلے بھى ايسا كر چكى ہے جو اس كى دليل ہے كہ ممكن ہے وہ اپنے آپ كو نقصان پہنچا دے اور جو كہہ رہى ہے اس پر عمل كر لے، تو اس كى دھمكى كے خدشہ كو پيش نظر ركھتے ہوئے اسے طلاق دے دى اور اس كے ساتھ اس كا اسے طلاق دينے كا ارادہ بھى نہ تھا تو راجح يہى ہے كہ بيوى نے جو كچھ كيا وہ اكراہ كى ايك قسم ہے جو طلاق واقع ہونے ميں مانع ہے.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

” جب كسى انسان كو حرام فعل پر مجبور كيا جائے تو كيا اس كے نتيجہ ميں گناہ يا فديہ يا كفارہ لازم ہوگا ؟

جواب:

اس پر كچھ مرتب نہيں ہوگا، اور اس كى دليل قرآن مجيد ميں اللہ عزوجل كا يہ فرمان ہے:

جو كوئى ايمان كے بعد كفر كرے مگر جسے مجبور كر ديا جائے اور اس كا دل ايمان پر مطمئن ہو، ليكن جو شرح صدر كے ساتھ كفر كرے تو ان پر اللہ كا غضب ہے اور ان كے ليے عظيم عذاب ہے النحل ( 106 ).

چنانچہ جب آدمى كا اكراہ كى حالت ميں كفر پر مؤاخذہ نہيں ہے جو كہ سب سے بڑا جرم اور گناہ ہے، تو اس سے كم درجہ كے افعال ميں بالاولى عدم مؤاخذہ ہوگا.

سوال:

ايسے شخص كے متعلق آپ كيا كہتے ہيں جس كى بيوى نے اسے طلاق دينے پر مجبور كر ديا اور كہنے لگى: يا تو تم طلاق دو يا پھر وہ اپنے آپ كو قتل كر لےگى، اور جو كچھ كہہ رہى ہے وہ اس كو نافذ كرنے پر قادر ہو، چھرى اس كے ہاتھ ميں تھى تو اس شخص نے اسے طلاق دے دى تو كيا يہ طلاق واقع ہو گى يا نہيں ؟

جواب:

يہ طلاق واقع نہيں ہو گى كيونكہ وہ مكرہ تھا.

مكرہ يعنى مجبور كيسے تھا ؟

كيونكہ بيوى اپنے آپ كو قتل كرنا چاہتى تھى، اور وہ اس كو نافذ كرنے پر بھى قادر تھى، اور يہ تو اكراہ سے بھى زيادہ شديد ہے، اس ليے ہم كہتے ہيں: طلاق واقع نہيں ہوگى، اور اسى طرح مكرہ پر سب احكام مرتب نہيں ہونگے ” انتہى مختصرا

ديكھيں: دروس و فتاوى الحرم المدنى ( 134 ).

اور شيخ رحمہ اللہ سے يہ بھى دريافت كيا گيا:

ايك شخص كى بيوى نے دھمكى دى كہ اگر وہ اسے طلاق نہيں دےگا تو وہ اپنے آپ كو قتل كر لےگى، تو وہ بعض اوقات طلاق كے الفاظ ادا كرنے پر مجبور ہوا تو كيا طلاق واقع ہو جائيگى ؟

شيخ كا جواب تھا:

” اس كى طلاق مكرہ يعنى مجبور كيے گئے شخص كى طلاق ہے، چنانچہ يہ طلاق واقع نہيں ہو گى ” انتہى

ديكھيں: ثمرات التدوين من مسائل ابن عثيمين ( 114 ).

خلاصہ يہ ہوا كہ:

سوال ميں مذكورہ عورت كو طلاق نہيں ہوئى، كيونكہ اس كا خاوند مكرہ تھا يعنى اس پر جبر كيا گيا تھا اور وہ اسے طلاق دينے كا ارادہ نہيں ركھتا تھا.

مزيد آپ سوال نمبر (99645 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android