0 / 0

بيوى اپنےبہن بھائى سے جھگڑا كر كے خوش ہو اور خاوند ايساكرنےسے روكے تو كيا خاوند كى اطاعت واجب ہو گى ؟

سوال: 137725

ميں نے ايك تئيس برس كى عورت سے شادى كى ہے، وہ نيك و صالحہ مسلمان عورت ہے، ہم حسب استطاعت اللہ كا قرب اور اسلامى تعليمات پر عمل كرنے كى كوشش كرتے ہيں، ميں ايك ايسے مسئلہ ميں آپ كا تعاون چاہتا ہوں جس نے ہمارے درميان تعلقات كشيدہ كر ديے ہيں.

ميرى بيوى كى پرورش ايك غير ذمہ دار گھرانے ميں ہوئى ہے اس كے تين بھائى اور دو بہنيں اور بھى ہيں، يہ طبعى چيز ہے كہ ان كا آپس ميں ايك دوسرے سے تفريح كى فضا ميں اختلاف ہو جاتا ہے، ليكن يہ چيز ہمارے درميان بھى اختلاف كا باعث بنتى ہے.

ميں بطور ايك خاوند ان سب اشياء كو رد كرتا ہوں، اور مجھے اس سے تنگى محسوس ہوتى ہے، اور يہ اچھا نہيں لگتا كيونكہ اس دور ميں اس طرح كے معاملات كا مظاہرہ نہيں كرنا چاہيے، وہ اب ايك چھوٹى سى بچى شمار نہيں ہوتى بلكہ ايك عورت سمجھى جاتى ہے، ليكن اس كے باوجود وہ درج ذيل كام كرتى ہے:

اپنے بھائيوں كو حقير اور ذليل سمجھتى ہے ـ يہ كوئى عجيب بات نہيں ـ بلكہ يہ خاندانى ثقافت كى شبيہ ہے، اور اگر يہ كسى شرعى قواعد و ضوابط سے مربوط ہے تو پھر ميرا پہلا سوال يہ ہے كہ:

كيا ميرى بيوى كا اپنے بھائيوں كے ساتھ اس طرح كا جھگڑا كرنا جائز ہے جس ميں جسمانى تكليف بھى ہو، اور يہاں ميرا قضيہ بھى يہى ہے ؟

وہ جب بھى چاہتى ہے اس پر عمل كرتى ہے اور اس پر مصر بھى ہے، حالانكہ اسے معلوم ہے كہ يہ سب كچھ ميرے ليے تكليف دہ ہے اور ميں اس سے تنگ ہوتا ہوں، اور ميں اس طرح كى تفريح قبول نہيں كرتا ؟

ميرا دوسرا سوال يہ ہے كہ:

جو كچھ ہو چكا ہے اگر يہ جائز ہے چاہے اس كا خاوند اسے ناپسند كرتا ہو، اور اسے قبول نہ كرے تو كيا بيوى كا ايسا عمل جارى ركھنا جائز ہے ؟

مجھے معلوم ہے كہ اسلام نے اس تفريح سے منع نہيں كيا ليكن خاوند اس طرح كى تفريح نہيں چاہتا، اس ليے اس صورت ميں بيوى كے ذمہ كيا واجب ہوتا ہے، كيا وہ اپنے خاوند كى اطاعت نہ كرے، اس طرح كے مسئلہ ميں دين اسلام كيا كہتا ہے ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اول:

بلا شك و شبہ اللہ سبحانہ و تعالى نے خاوند كى اطاعت و فرمانبردارى كرنے كو بہت عظيم قرار ديا ہے، اور بيوى كے ذمہ كچھ حقوق ركھے ہيں جن ميں نيكى و معروف كے كاموں ميں خاوند كى اطاعت بھى شامل ہے.

مزيد آپ سوال نمبر (10680 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

بلكہ خاوند كى اطاعت تو والدين كى اطاعت پر بھى مقدم ركھى گئى ہے، اس كى تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر (43123 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

دوم:

بھائيوں كا آپس ميں جھگڑا كرنا چاہے وہ بطور مذاق ہى كيوں نہ ہو اس ميں كئى ايك منوعہ اشياء پائى جاتى ہيں جن ميں سے سب سے زيادہ واضح اور اہم يہ ہيں:

1 ـ اس كے نتيجہ ميں غضب و ناراضگى پيدا ہوتى ہے اور غضب و ناراضگى دلوں ميں كينہ و بغض اور قطع تعلقى اور حسد كا باعث بنتا ہے.

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ايك شخص نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آيا اور عرض كرنے لگا:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم مجھے كوئى وصيت فرمائيں.

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: غصہ مت كيا كرو.

اس شخص نے اسے كئى بار دھرايا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہر بار يہى فرمايا: غصہ مت كيا كرو ”

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5765 ).

اور ايك روايت ميں ہے:

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ايك شخص نے عرض كيا: ….

چنانچہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے فرمان پر غور و فكر كيا تو مجھے سمجھ آئى كہ غصہ ہر قسم كى برائى اور شر كو جمع كر ليتا ہے ”

مسند احمد ( 38 / 237 ).

خطابى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

” نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے فرمان: غصہ مت كيا كرو ” كا معنى يہ ہے كہ: غصہ والے اسباب سے اجتناب كيا كرو اور ايسى چيز اور عمل مت كرو جو غصہ لانے كا باعث بنتا ہو .

ديكھيں: فتح البارى ( 10 / 520 ).

2 ـ جسمانى لمس كے نتيجہ ميں جو كچھ مرتب ہوتا ہے ـ اور سائل نے يہ بيان بھى كيا ہے ـ كيونكہ ہو سكتا ہے دونوں كے جسم كے لمس كى حالت ميں شہوت پيدا ہو جائے، يا پھر دونوں ميں نہيں بلكہ كسى ايك كى شہوت انگيخت ہو، تو يہ معاملہ اور بھى برا بن جائيگا جب يہ مرد و عورت كے مابين ہو.

اس طرح كى تفريح كى ممانعت كى دليل نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے اس فرمان سے بھى لى جا سكتى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے دس برس كى عمر ميں بچوں كے بستر عليحدہ كرنے كا حكم ديا ہے.

ـ اس پر مستزاد يہ كہ اگر خاوند اس طرح كا مذاق ناپسند كرتا ہے تو يہ اور بھى غلط ہوگا.

اس ليے بيوى كو چاہيے كہ وہ خاوند كى اطاعت كرتے ہوئے اس طرح كے مذاق اور تفريح سے باز رہے، چاہے وہ اسے مباح بھى سمجھتى ہو ليكن خاوند كى ناراضگى كے پيش نظر اس سے رك جائے تا كہ خاوند اور بيوى كے تعلقات خراب نہ ہوں.

اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ دونوں ميں محبت و الفت اور مودت پيدا فرمائے، اور آپ دونوں كو خير و بھلائى اور محبت و الفت پر جمع ركھے.

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

answer

متعلقہ جوابات

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android