0 / 0

غزالی رحمہ اللہ کون ہیں ؟

سوال: 13473

سوال: کیا آپ اس سوال پر روشنی ڈال سکتے ہیں کہ: “امام غزالی رحمہ اللہ کون تھے”؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

امام غزالی رحمہ اللہ کا نام:  محمد بن محمد بن محمد بن احمد طوسی، المعروف غزالی  ہے، آپکی پیدائش طوس کے علاقے  میں  سن 450 ہجری میں ہوئی، آپ کے والد  اون بُن کر اپنی دکان میں فروخت کیا کرتے تھے جو کہ طوس میں ہی واقع تھی۔

غزالی رحمہ اللہ کی زندگی کےمختلف مراحل کی وجہ سے ان کے بارے میں گفتگو  کافی طویل ہے،   آپ نے آغاز  فسلفے سے کیا اور اس میں رسوخ حاصل کیا کی پھر  فسلفے سے بیزار ہوئے، اور اس پر رد بھی لکھا،  اس کے بعد علم  کلام کے سمندر میں غوطہ زن ہوئے، اور اس کے اصول و ضوابط اور مقدمات ازبر کیے، لیکن  اس علم کی خرابیاں، اور تضادات   عیاں ہونے پر اس سے بھی رجوع کر لیا، اور ایک مرحلہ ایسا بھی تھا کہ آپکو  “متکلم” کا درجہ حاصل تھا ، اس مرحلے میں آپ نے فسلفی  حضرات کی خوب خبر  لی؛ اور اسی وجہ سے آپکو “حجۃ الاسلام” کا لقب ملا، اس مرحلے میں انہوں نے فلسفی لوگوں کے نظریات کو باطل ثابت کیا،  پھر  اس کے بعد  انہوں نے علم کلام سے کنارہ کشی اختیار  کی، اور باطنیہ کے مشرب و مسلک  پر چل پڑے، ان کے علوم سیکھے، پھر ان سے بھی الگ ہو گئے، اور انکے نظریات و عقائد کی قلعی کھولتے ہوئے کتاب و سنت  کی نصوص اور احکام  شریعت  کے ساتھ ان کے کھلواڑ کا کچا چٹھا  سب کے سامنے رکھا،اور اس کے بعد آپ نےتصوف کی راہ اختیار کی۔

یہ چار ادوار  ہیں جو غزالی رحمہ اللہ کی زندگی میں آئے ہیں، اور ان کے بارے میں  سب سے اچھا تبصرہ ابو عمر ابن الصلاح رحمہ اللہ کا ہے، ان کا کہنا ہے کہ:
“ابو حامد غزالی  کے بارے میں خوب  کلام کی گئی  ہے، چنانچہ ان کی  -حق مخالف – کتابوں  کی طرف توجہ نہ دی جائے، اور انکی ذات کے بارے میں خاموشی اختیار کرتے ہوئے ان کا معاملہ اللہ کے سپرد کر دیا جائے”
دیکھیں:  کتاب: ” أبو حامد الغزالي والتصوف ” از عبد الرحمن دمشقیہ

منصف شخص  ابو حامد غزالی کی  ذہانت، فطانت، اور نادر زمانہ عبقریت  کا انکار نہیں کر سکتا، یہی وجہ ہے کہ ان کے بارے میں امام ذہبی رحمہ اللہ نے کہا:
“غزالی، بہت بڑے شیخ، بحرِ بے کنار امام ، حجۃ الاسلام، اپنے زمانے کے یگانہ روزگار جن کا لقب زین الدین، کنیت ابو حامد اور نسب محمد بن محمد بن محمد بن احمد طوسی شافعی غزالی ہے، آپکی  متعدد تصانیف ہیں، آپ انتہائی زیرک فہم کےمالک تھے، ابتدائی طور پر اپنے علاقے میں ہی  فقہی علوم حاصل کیے، اس کے بعد اپنے طالب علم ساتھیوں کیساتھ نیشاپور منتقل ہو گئے،   وہاں انہوں نے امام الحرمین کی شاگردی اختیار کی، اور فقہ میں تھوڑی سی مدت کے دوران ہی اپنی  مہارت کا لوہا منوایا، پھر علم کلام، علم جدل میں بھی مہارت حاصل کی، یہاں تک کہ مناظرین  کی آنکھوں کا مرکز بن گئے۔۔۔”
“سیر اعلام النبلاء” (9/323)

ابو حامد غزالی  اگرچہ علم و فضل، فقہ، تصوف، علم کلام، علم اصول  کے مالک تھے، اسی طرح  زہد، عبادت گزاری، نیک نیتی، اور علوم اسلامیہ میں بحر بے کنار تھے۔۔۔ اس کے باوجود فلسفے کی طرف مائل تھے، تاہم انہوں نے فلسفے کو تصوف کے سانچے میں ڈھال کر اسلامی تحریروں میں  پیش کیا، یہی وجہ ہے کہ مسلمان اہل علم نے ان کا کافی رد کیا، حتی کہ انکے خاص شاگرد ابو بکر بن العربی  نے بھی ان کا رد کیا، ان کا کہنا ہے کہ:
“ہمارے شیخ  ابو حامد  فسلفیوں کی گہرائی تک گئے، پھر وہاں سے باہر آنا چاہا تو باہر نہ آسکے، آپ سے باطنی مذاہب  کے نظریات بھی منقول ہیں، جن کی تصدیق  آپ کی کتب میں پائی جاتی ہے”
دیکھیں: “مجموع الفتاوی”(4/66)

غزالی رحمہ اللہ  علوم و فنون میں خوب دسترس رکھنے کے باوجود حدیث اور علوم الحدیث میں قابل ذکر دسترس نہیں رکھتے تھے، یہاں تک کہ آپ صحیح اور ضعیف حدیث میں امتیاز نہیں کر پاتے تھے، چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اور اگر یہ بات ایک لمحے کیلئے فرض  کر لیں کہ کسی نے  سلف صالحین کے عقائد [انکے حقیقی عقائد سے متصادم شکل میں] ذکر کیے بھی ہیں تو  حقیقت میں  ایسا شخص  یا تو سلف صالحین کے اقوال سے  بہرہ ور نہیں ہوگا، جیسے ابو معالی، ابو حامد غزالی، ابن خطیب وغیرہ  ہیں، کیونکہ ان کے پاس حدیث اور آثار کے بارے میں اتنا بھی علم نہیں تھا کہ انہیں محدثین  اور اہل فن حدیث کے عام لوگوں میں شمار کیا جائے،  خواص میں شمار کرنا تو بہت دور کی بات ہے، بلکہ یہ سب بخاری  و مسلم کی  احادیث کو سننے کی حد تک پہچانتے تھے ،  جیسے علم حدیث سے لگاؤ رکھنے والے  مبتدئین کا حال ہوتا ہے[یعنی انہیں بخاری و مسلم کی احادیث زبانی  یاد نہیں تھیں]، بلکہ وہ محدثین کے ہاں صحیح  متواتر حدیث اور من گھڑت و خود ساختہ احادیث  کے درمیان امتیاز بھی نہیں کر سکتے تھے، ان کی کتابیں اس بارے میں سب سے بڑی گواہ  ہیں، ان کتابوں میں عجیب و غریب احادیث ذکر کی گئی ہیں۔

عام طور پر تصوّف اور  علم کلام سے منسلک لوگ  سلف کے عقیدے کا اعتراف کرتے ہوئے بھی نظر آئیں گے، یا تو مرتے وقت، یا پھر مرنے سے  پہلے ،  اس بارے میں بہت سے واقعات  مشہور و معروف ہیں۔۔۔ اور ابو حامد غزالی  کمال ذہانت، عبادت، علم کلام و فلسفے کے بارے میں کامل معرفت کے ساتھ ساتھ  زہد، ریاضت، اور تصوف کے باوجود عقیدے کے مسائل میں  حیران و پریشان توقّف کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، اور آخر کار اہل کشف  کے طریقے کی طرف مائل نظر آتے ہیں۔۔۔”
“مجموع الفتاوی” (4/71)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اسی طرح  ایک جگہ رقمطراز ہیں:
“ابو حامد [غزالی] کی گفتگو میں فلسفیوں پر رد موجود ہے، بلکہ انہوں نے فلسفیوں کی تکفیر بھی کی ہے، نیز تعظیمِ نبوت سمیت  دیگر  بہت سی اچھی  اور  صحیح موقف پر مبنی  عظیم الشان مفید باتیں  بھی ہیں،  تاہم  انکی گفتگو میں  فلسفی  باتیں بھی ہیں، اسی طرح ان کی طرف منسوب  ایسی باتیں بھی ہیں جو  فلسفی اصولوں سے  موافقت رکھتی ہیں لیکن عقیدہ نبوت  سے مخالفت ، بلکہ  عقل سلیم سے بھی متصادم ہیں، یہی وجہ ہے کہ [ابو حامد غزالی] کے بارے میں خراسان، عراق سے لے کرمغرب کے اہل علم تک نے بھی تنقید  کی ہے، مثال کے طور پر ان [ابو حامد غزالی]کے قریبی دوست ابو اسحاق مرغینانی، ابو الوفاء بن عقیل،  قشیری، طرطوشی، ابن  رشد، مازری، اور دیگر بھی بہت سے لوگ ہیں، مزید برآں  اس بات کا تذکرہ ابو عمر و بن الصلاح نے  “طبقات اصحاب الشافعی” میں  بھی کیا ہے، اسی طرح شیخ ابو زکریا نووی رحمہ اللہ نے اسی کو صحیح قرار دیا۔

انہوں نے اس کتاب  میں کہا: “فصل:  امام غزالی  کی تصانیف میں موجود ایسے اہم شاذ نظریات جو غزالی  کے مخالفین سمیت انکے ہم مذہب اہل علم  نے بھی مسترد کر دیے” ان میں غزالی کی مقدمہ منطق میں موجود  یہ بات بھی شامل ہے کہ انہوں نے کہا:”یہ [منطق] ہر علم  کا مقدمہ ہے، جسے اس کا علم نہیں ہے، اس کے علم پر بالکل بھروسہ نہیں کیا جا سکتا”

شیخ ابو عمرو [ابن الصلاح] کہتے ہیں:
“میں نے شیخ عماد بن یونس  کو  یوسف دمشقی  کی بات نقل کرتے ہوئے سنا جو کہ بغداد میں نظامیہ کے استاد تھے، اور نظر و فکر  میں خوب معروف تھے، وہ  [غزالی کی]اس بات  کی تردید کرتے ہوئے کہتے تھے: ” ابو بکر، عمر، اور دیگر  عظیم ہستیوں  کا مقام بہت ہی بلند تھا، لیکن وہ ان مقدمات و اسبابِ مقدمات  کو جانتے ہی نہیں تھے “
“العقیدہ الاصفہانیہ”(1/169)

ذہبی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب “سیر اعلام النبلاء” میں محمد بن ولید طرطوشی   کی طرف سے ابن مظفر کو لکھا گیا ایک خط نقل کیا ہے، جس میں انہوں نے لکھا تھا:
“آپ نے ابو حامد [غزالی] کا ذکر کیا ہے، تو میری ان سے ملاقات  اور گفتگو بھی   ہوئی ہے، تو مجھے ان میں اہل علم کی جلالت نظر آئی، ان میں  عقل و فہم دونوں یکجا  جمع ہیں، انہوں نے اپنی ساری زندگی  حصول علم میں  گزری، بلکہ ان کے زمانے کے تمام لوگ ایسے ہی تھے، پھر کچھ اہل علم   کی وجہ سے  انہوں نے  عبادت گزاری  کا راستہ اختیار کیا، اور پھر تصوّف میں داخل ہوگئے، علم و اہل علم سے یکسر کنارہ کشی اختیار کر تے ہوئے  علومِ خواطر [تصوف میں ایک علم کا نام] ، قلبی  عبادات اورشیطانی  وسوسوں میں پڑ گئے،  پھر  اس علم میں فلسفی آراء اور حلاج  کی اصطلاحات بھی شامل کر دیں، اور  پھر فقہاء و  متکلمین پر  طعن و تشنیع کرنے لگے، یہاں تک صورت حال بگڑ گئی کہ  قریب تھا کہ بے دین ہو جاتے، چنانچہ جب “احیاء العلوم ” لکھی تو  صوفیوں کے “علم الاحوال” اور “اصطلاحات تصوف” کے بارے میں  گفتگو کرنے لگے، حالانکہ انہیں اس بارے میں دسترس حاصل نہیں تھی، چنانچہ [اس کتاب کے لکھنے کی وجہ سے]اوندھے منہ گر پڑے،  اور اپنی کتاب  کو موضوع من گھڑت واقعات سے  بھر دیا”

میں [یعنی: امام ذہبی رحمہ اللہ]کہتا ہوں:
“ابو حامد غزالی کی کتاب: “احیاء العلوم ” میں متعدد باطل  احادیث ہیں، تاہم اچھی باتیں بھی بہت ہیں، کاش کہ آپ اپنی اس کتاب میں آداب، اور زہد  کے  طور طریقے حکماء  و منحرف صوفیوں کے انداز سے نہ بیان کرتے، اللہ تعالی سے ہم علم نافع کے سوالی ہیں۔
آپ کو علم ہے کہ علمِ نافع کیا ہوتا ہے؟
علم نافع وہ ہے جسے  قرآن میں بیان کیا گیا ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی عملی یا قولی تفصیل بیان کی، اور پھر بعد میں اس سے منع نہیں کیا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جس شخص نے میری سنت سے اعراض کیا، تو وہ مجھ سے نہیں ہے) چنانچہ  میرے [محترم قاری]  بھائی! کتاب اللہ پر غور و فکر کرو، صحیح بخاری و مسلم پڑھو، سنن نسائی، اور نووی رحمہ اللہ کی ریاض الصالحین، و الاذکار کتاب پڑھو، فلاح و کامیابی پاؤ گے۔

اسی طرح اپنے آپ کو  فلسفیوں کے نظریات،  روحانی ریاضتوں، راہبوں کی طرح خالی پیٹ رہنا، اور تنہائی میں اکیلے کھڑے رہنے  والوں سے  بچو، کیونکہ خیر اور بھلائی صرف  دینِ حنیف  کی اتباع میں ہے، اللہ تعالی سے ہی اس کیلئے مدد چاہو، یا اللہ! ہماری اپنے سیدھے راستے کی طرف  رہنمائی فرما۔۔۔

مازری رحمہ اللہ نے ابو حامد [غزالی کی]فقہ کے بارے میں  مدح سرائی کی ہے،  اور کہا: “ابو حامد اصول فقہ کی بہ نسبت  فقہ میں زیادہ ماہر تھے، جبکہ وہ علم الکلام جو کہ اصول الدین میں  سے ہے، اس بارے میں انہوں نے تصنیف بھی لکھی ہے، تاہم وہ اس میں بلند پایہ ماہر نہیں تھے، مجھے ان کے علم الکلام  میں ماہر نہ ہونے کا احساس ہو گیا تھا، اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے علومِ فلسفہ  علم اصول  فقہ میں  مکمل  مہارت حاصل کرنے سے پہلے  پڑھنا شروع کر دیے تھے، اور فلسفہ پڑھنے کی وجہ سے  ان میں  نظریات پر  تنقید  اور حقائق  پر  حملہ آور ہونے کی صلاحیت ملی ؛ کیونکہ  فلسفی حضرات  اپنی سوچ میں مست شریعت سے دور رہ کر افکار و نظریات اپناتے ہیں”

مجھے ان کے ایک دوست نے  یہ بھی بتلایا کہ   وہ “اخوان الصفا”  کے رسائل پڑھتے ہیں، یہ اکیاون رسائل پر مشتمل ہیں، انہیں ایسے شخص نے تحریر کیا ہے جس نے شرعی اور فلسفی علوم پڑھے ہوئے ہیں، تو اس نے اپنی ان تحریروں میں دونوں علوم کو  ملا کر پیش کیا، اس شخص کا نام ابن سینا  سے معروف تھا، جس نے تصنیف کی دنیا میں ہنگامہ برپا کردیا، ابن سینا کو فلسفے پر اتنی مہارت حاصل تھی کہ اس  نے بنیادی عقائد کو فلسفے کے روپ میں دھار دیا، اور ایسے کام میں کامیاب ہو گیا جو کسی اور کو  کرنے کی ہمت نہیں ہوئی، میں نے انکی کتابوں میں سے کچھ عبارتیں دیکھیں، اور نوٹ کیا کہ  ابو حامد  علوم فلسفہ   سے متعلق جتنا  حوالہ ان رسائل کا دیتے ہیں، وہ ان سے اس سے بھی زیادہ  استفادہ  کرتے ہیں، جبکہ صوفی نظریات کے بارے میں میں نہیں جانتا کہ انہوں نے کس پر زیادہ اعتماد کیا، تاہم  غزالی کے   شاگردوں نے  لکھی ہوئی اپنی تعلیقات میں ذکر کیا ہے کہ  اس بارے میں بھی وہ ابن سینا کی کتابوں سے لیتے تھے، پھر انہوں نے یہ بھی ذکر کیا کہ غزالی  ابو حیان توحیدی کی کتب  پر زیادہ انحصار کرتے تھے، بہر حال میرے نزدیک  یہ بات زیادہ قوی ہے کہ انہوں نے تصوف کے بارے  میں ابو حیان توحیدی کی کتب پر انحصار کیا ہے، بعد میں مجھے یہ بھی بتلایا گیا کہ  ابو حیان نے اس بارے میں  ایک بہت ہی بڑی تالیف بھی کی  تھی،اور   کتاب “احیاء العلوم” میں  بہت سی سخت ترین ضعیف روایات ہیں۔۔۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ: غزالی ایسی چیزوں کو بھی اچھا سمجھتے ہیں جن کی کوئی بنیاد ہی نہیں ہے، مثلاً: ناخن تراشتے ہوئے ابتدا شہادت والی انگلی سے کی جائے، کیونکہ اس انگلی کو   تسبیح والی انگلی  ہونے کی وجہ سے دیگر پر فوقیت حاصل ہے، پھر اس کے بعد درمیانی انگلی کا ناخن تراشے، کیونکہ یہ شہادت والی انگلی  کی دائیں جانب ہوتی ہے، اور سب سے آخر میں دائیں ہاتھ کے انگوٹھے  کا ناخن کاٹے، اس بارے میں انہوں نے ایک اثر بھی نقل کیا ہے۔

میں [یعنی: امام ذہبی رحمہ اللہ] کہتا ہوں کہ: یہ اثر من گھڑت ہے۔۔۔ ابو الفرج  ابن الجوزی  رحمہ اللہ کہتے ہیں: “ابو حامد غزالی نے  “احیاء العلوم” لکھی، انہوں نے باطل احادیث کی نشاندہی کئے بغیر ہی اسے باطل احادیث سے بھر دیا، پھر کشف کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے اصول فقہ سے ہی باہر چلے گئے، اسی طرح  یہ بھی کہا کہ جن تاروں، چاند، اور سورج کو  ابراہیم علیہ السلام نے دیکھا تھا  وہ  اللہ کے نور کے پردے تھے، ان باتوں کو ذکر کر کے انہوں نے انکی تردید بھی نہیں کی، حالانکہ ایسی باتیں باطنی  لوگ کیا کرتے ہیں”
“سیر اعلام النبلاء” (19/340)

غزالی رحمہ اللہ اپنی  زندگی کے آخری ایام میں عقیدہ اہل السنہ و الجماعہ  کی طرف لوٹ آئے تھے، اور کتاب و سنت  کو مضبوطی سے تھام لیا تھا، پھر انہوں نے  علم کلام اور اہل کلام کی خوب مذمت کی، اور ساری امت کو  کتاب و سنت  پر کار بند اور اسی کو اپنے لیے مرجع  او راصل ماخذ اپنانے کی  تلقین کی،  ساتھ میں  صحابہ کرام اور تابعین عظام کے طریقے کے مطابق عمل کرنے کی نصیحت بھی کی، چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“۔۔۔اور  اگرچہ آپ نے اس کے بعد  اہل الحدیث  کے نظریات کی طرف  رجوع کر لیا تھا، اور  پھر اسی مناسبت سے ایک کتاب: “الجام العوام عن علم الکلام” بھی لکھی ” انتہی
“مجموع الفتاوی”(4/72)

ابو حامد غزالی رحمہ اللہ کی کتاب : ” الجام العوام عن علم الکلام ” پر ایک  نظر ڈالنے سے  ہمیں انکی زندگی میں تبدیلی  کے حقائق بھی معلوم ہوتے ہیں، جس کی متعدد شکلیں  اس کتاب میں موجود ہیں:

1-انہوں نے اس کتاب میں عقیدۂِ سلف  کی خوب حمایت کی ہے، اور دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ حق بات سلف صالحین کا عقیدہ ہی ہے، اور جو بھی انکی مخالفت کرے، وہ بدعتی شخص ہے۔

2-صفاتِ الہی ثابت کرنے کیلئے ٹھوس الفاظ میں دعوت دی  اور انہوں نے تاویل کرنے سے سختی کیساتھ منع کیا، اور ایسی کسی بھی تاویل سے روکا ہے جس کی وجہ سے صفات الہی کو معطل کرنا لازم آئے۔

3-انہوں نے متکلمین  کی خوب خبر لی ہے، چنانچہ ان کے اصولوں اور معیار کو “مذموم بدعت” سے موسوم کیا، نیز یہ بھی بتلایا کہ انہی کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو نقصان اٹھانا پڑا، بلکہ یہاں تک کہہ دیا کہ مسلمانوں میں یہی شر کی اصل جڑ ہیں، چنانچہ آپ کہتے ہیں:
“ان اصولوں سے لوگوں کو نقصان  اٹھانے کی دلیل یہ  عینی مشاہدہ، اور تجربہ ہے، چنانچہ جب سے متکلمین پیدا ہو ئے ہیں اسی وقت سے برائی نے سر اٹھایا،  حالانکہ علم کلام  سے ممانعت صحابہ کرام  کے دورِ اول سے  موجود ہے۔
اس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے تمام صحابہ کرام  دلائل  پیش کرنے کیلئے متکلمین کے طریقے کو استعمال نہیں کرتے تھے،یعنی  ایک مسئلے کی جزئیات و کلیات قائم کی جائیں پھر اس کا تجزیہ کیا جائے، اس لیے نہیں کہ انہیں یہ انداز  آتا نہیں تھا، بلکہ اگر یہ انداز درست ہوتا تو  اس  میں بھی خوب دسترس  حاصل کرتے، اور دلائل  کے تجزیہ کیلئے  اتنی گہرائی تک چلے جاتے  جتنے وہ فرائض  کے مسائل کے بارے میں بھی نہیں گئےتھے”

اسی طرح انہوں نے یہ بھی کہا:  صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یہود و نصاری سے  گفتگو کرتے ہوئے نبوتِ محمدی  صلی اللہ علیہ وسلم ثابت کرنے کیلئے مناظرے کی ضرورت پڑتی تھی، لیکن پھر بھی انہوں نے قرآنی دلائل سے ہٹ کر دلائل نہیں دیئے، اور نہ ہی  عقلی  قیاس آرائی و مقدمات تشکیل دینے  کیلئے ذہن آزمائی کی، کیونکہ انہیں اس بات کا ادراک تھا کہ یہ طریقہ کار  مزید فتنوں، اور تشویش کا باعث ہے، [اور یہ بات مسلّم ہے کہ] جسے  قرآنی دلائل  مطمئن نہ کر سکیں، تو اسے صرف سیف و سنان  ہی مطمئن  کرسکتے ہیں، کیونکہ بیان الہی کے بعد کوئی بیان  نہیں ہوسکتا”

مزید کیلئے دیکھیں:  کتاب: “ابو حامد الغزالی  و التصوف”

مندرجہ بالا کچھ اقتباسات چند  معتمد اہل علم  کی گفتگو سے  لیے گئے ہیں، جو کہ غزالی رحمہ اللہ کے بارے میں  خوب دسترس رکھتے ہیں، امید ہے کہ متلاشیانِ حق و ہدایت کیلئے یہی کافی ہے،  اللہ تعالی ہی صراط مستقیم کی جانب رہنمائی کرنے والا ہے۔

واللہ اعلم.

ماخذ

الشیخ محمد صالح المنجد

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android