0 / 0

خواتین سے بات چیت کرنے کے آداب

سوال: 113996

درج ذیل حالات میں خواتین کے ساتھ بات چیت کرنے کے عمومی آداب کیا ہیں؟ خریدو فروخت، تعلیم و تدریس، ملازمت کے لیے انٹرویوز، آپ کسی خاتون کو کوئی چیز سمجھانا چاہتے ہیں؟ ایسی صورت میں نظریں کیسے جھکا کر رکھی جائیں؟ عمومی حالات میں کس وقت عورت کو دیکھنا جائز ہوتا ہے؟ مجھے ان تمام امور کے بارے میں مکمل تفصیل درکار ہے۔

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اجنبی عورتوں کے ساتھ بات چیت دو طرح کی ہو سکتی ہے کہ یہ بات ضرورت کی بنا پر ہو یا بلا ضرورت ہو، اگر بلا ضرورت ہو اور عورت کی آواز سن کر لذت بھی محسوس کرے، اور عورت بھی اپنی آواز ایسی ہی بنائے جس سے جنس مخالف کو مزید اپنی جانب متوجہ کرنا ہو تو پھر یہ حرام ہے، یہ زبان اور کان کے زنا میں آتا ہے، اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں بتلایا ہے کہ : (ابن آدم پر زنا کا حصہ لکھ دیا گیا ہے۔ وہ لا محالہ اس کو حاصل کرنے والا ہے؛ چنانچہ دونوں آنکھیں، ان کا زنا دیکھنا ہے۔ اور دونوں کان، ان کا زنا سننا ہے ۔ اور زبان، اس کا زنا بات کرنا ہے۔ اور ہاتھ، اس کا زنا پکڑنا ہے اور پاؤں، اس کا زنا چل کر جانا ہے۔ اور دل تمنا رکھتا ہے اور خواہش کرتا ہے اور شرم گاہ ان تمام باتوں کی تصدیق کرتی ہے یا اس کی تکذیب کرتی ہے) مسلم: (2657)

تاہم اگر عورت سے بات کرنے کی ضرورت پڑے تو بنیادی طور پر اس کا حکم جواز والا ہی ہے، البتہ درج ذیل آداب ملحوظ خاطر رکھنے چاہییں۔

1-بقدر ضرورت بات کی جائے، مقصود اور مطلوبہ بات ہی کریں، بات چیت کرتے ہوئے خواہ مخواہ میں بات کو لمبا مت کریں، محترم بھائی! اس حوالے سے آپ صحابہ کرام کے بات کرنے کے طریقے کو مد نظر رکھیں، اور ہماری روزمرہ کی خواتین سے گفتگو کا اس سے موازنہ کریں، جیسے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا واقعہ افک کے متعلق بیان کرتی ہیں کہ جس میں منافقوں کی طرف سے آپ رضی اللہ عنہا پر جھوٹی تہمت لگائی گئی ، آپ بیان کرتی ہیں کہ: (بنوسلیم کے بطن بنو ذکوان سے تعلق رکھنے والے صفوان بن معطل رضی اللہ عنہ لشکر کے پیچھے تھے۔ اور صبح کے وقت میری منزل کے پاس آئے تو انہیں کسی سوئے ہوئے انسان کا سایہ سا نظر آیا، وہ میرے قریب آئے تو مجھے دیکھ کر پہچان لیا۔ انہوں نے حجاب فرض ہونے سے پہلے مجھے دیکھا ہوا تھا۔ انہوں نے مجھے پہچاننے کے بعد انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا تو میں ان کی آواز سے جاگ گئی۔ میں نے اپنی پردے کی چادر سے اپنا چہرہ ڈھانک لیا، اللہ کی قسم! انہوں نے مجھ سے ایک لفظ تک نہیں بولا، اور نہ ہی انا للہ وانا الیہ راجعون کے علاوہ میں نے ان کے منہ سے کوئی بات سنی یہاں تک کہ انہوں نے اپنی اونٹنی کو بٹھایا۔ وہ اونٹنی کے اگلے پاؤں پر چڑھ کر کھڑے ہو گئے ، تو میں اس اونٹنی پر سوار ہو گئی اور وہ مجھے اونٹنی پر بٹھا کر اس کی نکیل کی رسی پکڑ کر چل پڑے، یہاں تک ہم لشکر میں پہنچ گئے۔) اس حدیث کو بخاری: (4141) اور مسلم: (2770) نے روایت کیا ہے۔

علامہ عراقی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ کہنا کہ: "انہوں نے صفوان سے ایک لفظ تک نہیں سنا" اس جملے میں ایک ہی بات کو دہرایا نہیں گیا؛ بلکہ اس میں کسی بھی قسم کی بات سننے کی نفی ہے؛ کیونکہ ایسا ممکن تھا کہ صفوان رضی اللہ عنہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے تو کوئی بات نہ کرتے لیکن دل ہی دل میں باتیں کرتے جاتے، یا قرآن کریم کی تلاوت کرتے جاتے، یا کوئی ذکر کرتے کہ اس ذکر کی آواز سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو سن جاتی، تو یہاں ان تمام کاموں میں سے بھی کچھ نہیں ہوا، چنانچہ سیدنا صفوان رضی اللہ عنہ نے غیر معمولی صورت حال اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے مکمل تحفظ کو مد نظر رکھتے ہوئے زبان سے کوئی لفظ نہیں بولا۔
نیز اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ: اجنبی خواتین کے ساتھ کس طرح بات کرنی ہے، خاص طور پر ایسی صورت میں جب انسان صحرا وغیرہ میں تنہا بھی ہو جیسے کہ سیدنا صفوان رضی اللہ عنہ نے کسی بات چیت اور سوال کے بغیر اونٹ پر سوار کیا۔" مختصراً ختم شد
"طرح التثريب" (8/53)

2- ہنسی مذاق والی باتوں سے اجتناب کرنا؛ کیونکہ اجنبی خواتین کے ساتھ ہنسی مزاح مروت اور ادب میں شامل نہیں ہے۔

3- ٹکٹکی باندھ کر مت دیکھیں، اور جتنا ممکن ہو سکے نظریں جھکا کر بات کریں، اور اگر بات چیت کی غرض سے تھوڑی بہت نظر پڑ بھی جائے تو ان شاء اللہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

4- گفتگو کرتے ہوئے دو طرفہ بات چیت میں نرم لہجہ نہ اپنائیں، اس کے لیے آواز پست رکھنے کے لیے تکلف نہ کریں، مخاطب کو اپنی جانب مائل کرنا مقصود نہ ہو، دونوں ہی اپنی طبعی آواز میں بات کریں، اللہ تعالی امہات المؤمنین کو مخاطب کر کے فرمایا: فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفًا ترجمہ: لہذا تم تو نرم لہجے سے بات نہ کرو کہ جس کے دل میں بیماری ہو وہ غلط خیالات لائے، اور تم عرف کے مطابق اچھی بات کرو۔[الاحزاب: 32]

5-کوئی بھی ایسے الفاظ اور اشارے استعمال نہ کرے جن میں دوسرے کے لیے قلبی رجحان کا اظہار ہو، یا ایسے الفاظ بھی استعمال نہ کریں جو مردوں یا خواتین کے لیے مخصوص ہوں۔

6-مخاطب کو اپنی گفتگو سے متاثر کرنے کے لیے بہت زیادہ مبالغہ نہ کرے؛ کیونکہ کچھ لوگ دوسروں سے بات چیت کرتے ہوئے باڈی لینگویج ، ہاتھوں کے اشارے، اشعار ، ضرب الامثال، اور جذباتی جملے ایسے استعمال کرتے ہیں کہ اس سے مخاطب متاثر ہوئے بغیر رہ ہی نہیں سکتا، اس طرح شیطان مرد و خواتین کے درمیان حرام تعلق کا دروازہ کھول سکتا ہے۔

ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"تمام کے تمام شعرا اجنبی خواتین کو دیکھنے اور ان سے باتیں کرنے کو بالکل بھی غلط نہیں سمجھتے، حالانکہ یہ شرعی طور پر بھی اور عقلی طور پر بھی حرام ہے، اس طرح انسان اپنے آپ کو دوسری جنس کی جانب مائل ہونے کے درپے کرتا ہے، اجنبی خواتین کو دیکھنے اور ان سے باتیں کرنے کو جائز سمجھنے والے کتنے ہی لوگ دینی اور دنیاوی طور پر عورتوں کے فتنے میں مبتلا ہو گئے ہیں۔" ختم شد
"روضة المحبين" (ص/88)

ہم اس مسئلے کی تفصیلات پہلے سوال نمبر: (1497)، (59873) اور (102930) میں ذکر کر آئے ہیں۔ نیز ہماری ویب سائٹ پر خواتین کے ساتھ گفتگو کرنے کے حوالے سے مکمل ایک زمرہ ہے، اس کا مطالعہ کرنا بھی مناسب ہو گا۔

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android