0 / 0
6,49201/01/2012

نكاح كے الفاظ بولتے وقت دوسرے گواہ كا موجود نہ ہونا

سوال: 112112

ميرى شادى ہو چكى ہے، ليكن مجھے يہ چيز پريشان كيے ہوئے ہے كہ ميرا عقد نكاح سوريا كى عدالت ميں ہوا جب ميں نے نكاح خوان كے متعلق دريافت كيا تو مجھے علم ہوا كہ وہ ہے تو مسلمان ليكن اس نے داڑھى منڈوا ركھى تھى اور جب عقد نكاح ہوا تو وہاں ايك گواہ موجود تھا جو كہ ميرے چچا تھے جنہوں كے عقد نكاح كے الفاظ كى گواہى دى.
دوسرا گواہ ايك مسلمان وكيل تھا جو نكاح كے بعد آيا اور دستخط كر كے چلا گيا نكاح كے وقت موجود نہ تھا تو كيا اس شكل ميں كيا گيا نكاح صحيح ہے يا كہ گواہ كو نكاح كے الفاظ كى ادائيگى كے وقت موجود ہونا چاہيے ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

نكاح ميں گواہى كا مطلب يہ ہے كہ عقد نكاح ہونے پر گواہى دى جائے، يعنى عورت كے ولى يا اس كے قائم مقام وكيل كى جانب سے ايجاب اور خاوند يا اس كے وكيل كى جانب سے قبول كى سماعت ہو.

اور اگر ايجاب و قبول تحرير كيا گيا ہو اور وہاں كوئى گونگا شخص ہو جو بول نہيں سكتا تو وہ اثنائے عقد نكاح لكھے گئے پر گواہى دے تو اس كى گواہى صحيح ہوگى؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

مگر جو حق كى گواہى دے اور وہ جانتے ہوں .

اس ليے جب گواہ كو علم ہو جائے تو كافى ہے.

ديكھيں: الشرح الممتع ( 5 / 162 ).

بعض اہل علم كہتے ہيں كہ اگر نكاح مشہور ہو جائے اور اعلان كر ديا گيا ہو اور لوگ اسے جانتے ہوں تو نكاح كى مخصوص گواہى سے كافى ہو جائيگا اور گواہى كى ضرورت نہيں رہےگى؛ گواہى سے زيادہ قوى ہے.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

” بعض علماء كرام كا كہنا ہے: نكاح ميں گواہ يا پھر اعلان شرط ہے، يعنى نكاح كا اظہار اور تبيان ہونا ضرورى ہے، اور جب نكاح كا اعلان ہو جائے اور لوگ جان جائيں تو يہ كافى ہوگا؛ كيونكہ يہ زيادہ واضح ہے تا كہ زنا كا اشتباہ نہ رہے.

نكاح ميں گواہ نہ بنانے ميں محظور يہ ہے كہ ہو سكتا ہے وہ كسى عورت سے زنا كرے اور اس سے حمل ٹھر جائے تو وہ يہ دعوى كر دے كہ اس نے تو شادى كے ہے حالانكہ حقيقت ميں ايسا نہيں تھا، اس ليے يہاں گواہى كى شرط ركھى گئى ہے.

ليكن اگر نكاح كا اعلان ہو جائے اور لوگوں كو علم ہو كہ اس كا نكاح ہوا ہے تو بالاولى اس محظور كى نفى ہو جاتى ہے؛ كيونكہ يہ چيز گواہى سے زيادہ بليغ ہے، شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ نے بھى يہى اختيار كيا ہے، وہ نكاح ميں يا تو گواہى يا پھر اعلان كى شرط ركھتے ہيں.

بلكہ شيخ الاسلام رحمہ اللہ كہتے ہيں: نكاح كے اعلان كے بغير گواہى كے ہوتے ہوئے نكاح صحيح ہونے ميں نظر ہے؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نكاح كے اعلان كا حكم ديتے ہوئے فرمايا:

” نكاح كا اعلان كرو “

اور اس ليے بھى خفيہ نكاح كرنے سے بہت سارى خرابيوں كا خدشہ ہے چاہے اس خفيہ نكاح ميں گواہ بھى ہوں؛ كيونكہ ممكن ہے ” اللہ كى پناہ ” كوئى شخص كسى عورت سے زنا كر كے كہے ميں نے تو اس سے شادى كر ركھى ہے، اور پھر اس كے جھوٹے گواہ بھى پيش كردے ” انتہى

ديكھيں: الشرح الممتع ( 5 / 160 ).

اس سے يہ واضح ہوتا ہے كہ عقد نكاح پر صرف گواہ بنانے سے اعلان نكاح زيادہ قوى ہے.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ نے گواہى اور اعلان كے مسئلہ كى تلخيص ان الفاظ ميں كى ہے:

” بلاشك و شبہ نكاح كا اعلان كرنے سے عقد نكاح صحيح ہوگا چاہے اس پرگواہ نہ بھى بنائے گئے ہوں، ليكن نكاح پر گواہ بنائے گئے ہوں اور نكاح كو خفيہ اور چھپا كر ركھا گيا ہو تو يہ محل نظر ہے، اور اگر اعلان نكاح اور گواہى دونوں جمع ہوجائيں تو اس كے صحيح ہونے ميں كوئى نزاع و اختلاف نہيں.

اور جب نہ تو گواہى ہو اور نہ ہى اعلان نكاح تو عام علماء كرام كے ہاں يہ نكاح باطل ہے، اگر اس ميں اختلاف بھى فرض كيا جائے تو يہ بہت قليل ہے ” انتہى

ديكھيں: الاختيارات ( 177 ).

شيخ الاسلام رحمہ اللہ كا يہ كہنا كہ:

” بلاشك و شبہ اعلان نكاح كى بنا پر نكاح صحيح ہو گا چاہے اس پر گواہ نہ بھى بنائے گئے ہوں “

اس سے يہ فائدہ ملتا ہے كہ آپ نے جو كچھ سوال ميں بيان كيا ہے اس كى بنا پر پريشان ہونے كى كوئى ضرورت نہيں، اور اگر بالفرض گواہى كو صحيح تسليم نہ بھى كيا جائے تو ان شاء اللہ اعلان نكاح ہى كافى ہے.

يہاں ايك چيز پر متنبہ كرنا ضرورى سمجھتے ہيں كہ گواہ وہى نہيں ہوتا جو عقد نكاح پر دستخط كرے، بلكہ عقد نكاح كے وقت جو شخص بھى وہاں موجود ہو چاہے وہ كاتب ہے يا پھر كوئى رشتہ دار يا نكاح خواں وغيرہ اگر وہ گواہى كے قابل ہوں تو وہ سب گواہ ہونگے.

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android