0 / 0

غیبت کی تعریف اور کفارہ

سوال: 23328

1-    کسی شخص کو یہ الزام دینے کا کیا حکم ہے کہ وہ اپنی زبان پر کنٹرول نہیں رکھ سکتا؟

2-    کیا یہ بتلانا ضروری ہے کہ کیا کیا باتیں ہوئیں اور کس کس نے باتیں کی؟

ہمارے ساتھ کچھ ایسا ہو چکا ہے کہ متعلقہ شخص کو یہ بتلانے کی بجائے کہ کس نے یہ بات کی ہے اور کیا بات کی ہے؟ اسے یہی کہا گیا کہ: کہنے والا کہتا ہے کہ : "وہ اپنی زبان پر کنڑول نہیں رکھ سکتا" اس سے زیادہ کچھ نہیں اسے بتلایا گیا۔

3-    کسی شخص کے بارے میں اس کی نہ کردہ بات کا الزام لگانا کیسے درست ہو سکتا ہے؟

ایسے بھی ہو سکتا ہے کہ انسان اس الزام سے بالکل بری ہے اور اس کے بارے میں فضا بہت خراب ہو چکی ہے، مجھے آپ سے امید ہے کہ اس بارے میں تمام اسلامی احکامات سے مجھے آگاہ کریں؛ تا کہ میں اس شخص کے خلاف ہونے والی الزامات کی بارش اور غیبت کو روک سکوں کہ جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنی زبان کو کنٹرول نہیں کر سکتا۔

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اول:

مسلمان کو اپنی زبان کی تمام ممنوعہ کاموں سے حفاظت کرنی چاہیے، غیبت، بہتان بازی اور چغلی ان عمومی گناہوں میں شامل ہیں جن کے بارے میں لوگ بہت زیادہ سستی کا شکار ہیں۔

غیبت: کسی بھی مسلمان کی عدم موجودگی میں اس کا ایسے تذکرہ اور تشہیر کرنا جو اسے اچھا نہ لگے۔

بہتان: کسی بھی مسلمان کے بارے میں ایسی بات کرنا جو اس میں نہیں پائی جاتی، گویا کہ یہ مسلمان کے بارے میں جھوٹ ہوتا ہے۔

چغلی: عداوت پیدا کرنے کے لیے ایک فریق کی بات کو دوسرے فریق تک پہچانا چغلی کہلاتا ہے۔

ان افعال کے حرام ہونے سے متعلق بہت زیادہ دلائل پائے جاتے ہیں، ہم ان میں سے چند دلائل آپ کے سامنے رکھتے ہیں؛ کیونکہ ان کاموں کے بارے میں سب لوگوں کو علم ہے کہ یہ حرام کام ہیں:

فرمانِ باری تعالی ہے:
 وَلا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضاً أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتاً فَكَرِهْتُمُوهُ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَحِيمٌ 
 ترجمہ: تم میں سے کوئی دوسرے کی غیبت نہ کرے، کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے؟ تم اسے ناپسند جانو گے، اللہ تعالی سے ڈرتے رہو، بیشک اللہ تعالی توبہ قبول کرنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔[الحجرات :12]

اسی طرح سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (کیا تم جانتے ہو کہ غیبت کسے کہتے ہیں؟) صحابہ کرام نے کہا: اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تمہارا اپنے بھائی کا تذکرہ ایسے انداز سے کرنا جو اسے ناگوار گزرے) ، اس پر کسی نے کہا: اگر میری کہی ہوئی بات میرے بھائی میں موجود ہے تو اس کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اگر تمہاری کہی ہوئی بات اس میں موجود ہے تو تم نے اس کی غیبت کی ہے، اور اگر اس میں وہ بات موجود ہی نہیں ہے تو پھر تم نے اس پر بہتان لگایا ہے۔) مسلم: (2589)

اسی طرح سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم دو قبروں کے پاس سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (ان دونوں قبروں کے مُردوں کو عذاب دیا جا رہا ہے، انہیں کسی انتہائی سنگین گناہ پر عذاب نہیں دیا جا رہا، بلکہ ان میں سے ایک چغل خوری کیا کرتا تھا، اور دوسرا شخص پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا۔) راوی کہتے ہیں کہ: آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کھجور کی ایک تر چھڑی منگوائی اور اسے دو حصوں میں تقسیم کر دیا، اور پھر ہر قبر پر ایک ایک چھڑی گاڑ دی، اور فرمایا: (امید ہے کہ جب تک یہ چھڑیاں خشک نہ ہوں تو ان دونوں سے عذاب کو ہلکا کر دیا جائے۔) اس حدیث کو امام بخاری: (213) اور مسلم : (292)نے روایت کیا ہے۔

دوم:
کسی شخص کا دوسرے شخص کے بارے میں یہ کہنا کہ: "وہ اپنی زبان پر کنٹرول نہیں رکھتا" یہ ایسی بات ہے کہ متعلقہ شخص اسے اچھا نہیں سمجھے گا، چنانچہ اگر واقعی اس میں یہ کمی ہے تو یہ غیبت ہے، وگرنہ یہ بہتان بازی ہے۔

جس شخص سے بھی غیبت، بہتان بازی یا چغلی سر زد ہوئی ہے وہ اللہ تعالی سے براہ راست معافی مانگ لے اور توبہ کر لے، اور اگر اسے معلوم ہو کہ اس کی کہی ہوئی بات متعلقہ شخص تک بھی پہنچ گئی ہے تو اس کے پاس جا کر معافی طلب کر کے اپنا معاملہ صاف کر لے، اور اگر متعلقہ شخص کو اس کا علم نہ ہوا ہو تو پھر اسے خود بتلانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس کے لیے اللہ تعالی سے بخشش مانگے اور اس کے لیے دعائیں کرے، نیز جس طرح اس کی غیبت کی ہے اسی طرح لوگوں کے سامنے اس کی تعریف کرے۔ اسی طرح اگر خدشہ ہو کہ متعلقہ شخص کو علم ہونے پر دشمنی میں اضافہ ہو گا تو پھر اس کے حق میں دعا، استغفار اور پیٹھ پیچھے اس کی تعریف کرنے پر ہی اکتفا کرے۔

جیسے کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جس شخص نے اپنے بھائی پر ظلم کیا ہو اس کی عزت اچھالی ہو یا کسی اور انداز میں زیادتی ہو تو وہ آج ہی اس سے اپنا معاملہ صاف کر لے، اس سے پہلے کہ ایسا دن آ جائے جہاں پر درہم و دینا کچھ بھی فائدہ نہیں دیں گے، اس دن میں ظالم کے نیک اعمال ظلم کے بقدر لے لیے جائیں گے، اور اگر اس کی نیکیاں نہ ہوئیں تو پھر مظلوم کے گناہ لے کر ظالم پر دال دئیے جائیں گے۔) بخاری: (2317)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"کسی انسان پر تہمت لگانے والا، یا اس کی غیبت کرنے والا یا اسے گالی دینے والا ظالم شخص توبہ کر لے تو اللہ تعالی اس کی توبہ قبول فرماتا ہے، لیکن اگر مظلوم کو ان چیزوں کا علم ہو گیا تو پھر مظلوم کو اپنا حق لینے کا مکمل موقع دے۔ لیکن اگر تہمت یا غیبت کی مظلوم شخص کو اطلاع ہی نہ پہنچے تو اس صورت میں اہل علم کے دو موقف ہیں، جو کہ دونوں ہی امام احمد سے منقول ہیں ، ان دونوں میں سے صحیح ترین یہ ہے کہ: مظلوم کو خود سے یہ مت بتلائے کہ اس نے اس کی غیبت کی تھی۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ جس طرح مظلوم کی عدم موجودگی میں اس نے غیبت کی تھی اب اسی طرح اس کی تعریفیں بھی کرے۔ جبکہ حسن بصریؒ کہتے ہیں کہ: غیبت کا کفارہ یہ ہے کہ آپ نے جس شخص کی غیبت کی ہے اس کے لیے بخشش طلب کریں ۔" ختم شد
" مجموع الفتاوى " ( 3 / 291 )

واللہ اعلم

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android