0 / 0
24,61807/03/2015

حدیث : “وہاں(نجد) زلزلے، اور فتنے ہونگے، اور وہیں پر شیطان کا سینگ رونما ہوگا”

سوال: 99569

سوال: میں آپ سے ایک حدیث کی شرح جاننا چاہتا ہوں ،جو کہ صحیح بخاری میں رقم نمبر: (990) پہ درج ہے جس کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نجد کیلئے دعا نہیں فرمائی،بلکہ آپ نے فرمایا: فتنہ، زلزلے، اور شیطانی لشکر نجد سے نکلیں گے، میں نے کچھ علمائے کرام کو شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ جیسے علمائے نجد کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے اس حدیث کا حوالہ دیتے سنا ہے، جیسے کہ یہ بات درست ہے کہ سلفی تحریک کے اکثر ذمہ داران نجد سے تعلق رکھتے ہیں، تو اس حدیث کی صحیح شرح کیا ہے؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اول:

سوال میں جس حدیث کی طرف اشارہ ہے اسےمتعدد صحابہ کرام نے، اور ان سے بہت سے تابعین عظام نے روایت کیا ہے، میں ان تمام احادیث میں سے صرف ایک حدیث بیان کرتا ہوں، کیونکہ وہ تمام احادیث لفظ و معنی کے اعتبار سے آپس میں ملتی جلتی ہیں:
ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ[رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا]: (یا اللہ! ہمارے شام اور یمن میں برکت فرما) صحابہ کرام نے عرض کیا: “اورہمارے نجد میں بھی؟” تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: (یا اللہ! ہمارے شام اور یمن میں برکت فرما)، صحابہ کرام نے عرض کیا: “اورہمارے نجد میں بھی؟” تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: (وہاں زلزلے، فتنے ہونگے اور وہیں سے شیطان کا سینگ رونما ہوگا)بخاری: (1037) مسلم: (2905) اور لفظ بخاری کے ہیں

اس حدیث کے متعلق گفتگو متعدد مسائل پر مشتمل ہے:

پہلا مسئلہ:
سب اہل اہم کے ہاں یہ معروف ہے کہ کتاب و سنت میں موجود کچھ جگہوں اور اقوام کی فضیلت میں وارد شدہ نصوص کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ جو بھی اس جگہ  یا قوم کی طرف منسوب ہوگا وہ دیگر جگہوں یا اقوام کے افراد سے افضل ہوگا،  بالکل اسی طرح جن جگہوں کے بارے میں مذمت وارد ہوئی ہے اور وہاں مستقبل میں ہونے والے شر کے بارے میں ذکر کیا گیا ہےتو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ جو بھی اس علاقے کی طرف منسوب ہوگا یا اس کی طرف نسبت رکھے گا وہ مذموم ہوگا، اس کی دلیل اللہ تعالی کا فرمان ہے:
(يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوباً وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ )
اے لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا، اور تمہیں اقوام و قبائل میں اس لئے تقسیم کیا کہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، بیشک اللہ کے ہاں تم میں سے افضل وہی ہے جو زیادہ متقی ہے، بیشک اللہ تعالی جاننے والا اور خبر رکھنے والا ہے۔ [الحجرات:13]

اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: (بیشک اللہ تعالی تمہاری شکل وصورت اور مال و دولت کی طرف نہیں دیکھتا بلکہ تمہارے دلوں اور اعمال کی طرف دیکھتا ہے) مسلم: (2564)
چنانچہ اچھے برے کا معیار دل اور عمل ہے، قبائل، نسل، شہریت، یا رنگ  معیار نہیں ہے، یہ بات اہل علم کے ہاں متفقہ ہے۔

امام مالک رحمہ اللہ نے موطا: (1459) میں یحی بن سعید رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ :
“ابو درداء رضی اللہ عنہ نے سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی طرف خط لکھا: مقدس زمین -شام-کی طرف آجاؤ”، تو سلمان رضی اللہ عنہ  نے انہیں جواب میں لکھا: “زمین کسی کو مقدس نہیں بناتی، بلکہ انسان کو اسکا اپنا عمل مقدس بناتا ہے”انتہی

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ “مجموع الفتاوى” (27/45-47)کہتے ہیں:
“اور بات بھی ایسے ہی جیسے سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے کہی ہے، کیونکہ مکہ -اللہ تعالی اس کی حفاظت فرمائے- سب سے افضل ترین جگہ ہے، اور یہی مکہ ابتدائے اسلام  میں دار الکفر، اور دار الحرب تھا، بلکہ یہاں رہنا بھی حرام تھا، اور فتح مکہ کے بعد بھی مہاجرین پر یہاں مقیم ہونا حرام کر دیا گیا تھا، اسی طرح شام کا علاقہ  موسی علیہ السلام کے بنی اسرائیل کو( مصر سے) لیکر نکلنے سے پہلے  بے  دین مشرک ، ظالم اور فاسق لوگوں کا  گہوراہ تھا، اور اسی کے بارے میں اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کو کہا تھا کہ: سَأُرِيكُمْ دَارَ الْفَاسِقِينَمیں عنقریب تمہیں فاسقوں کا ٹھکانہ دکھاؤں گا۔ [الأعراف : 145]
چنانچہ کسی جگہ کا دارالکفر، یا  دارالسلام اور  دار الایمان ہونا، یا دار الحرب یا دار الامن ہونا،یا اطاعت یا معصیت کی جگہ ہونا، یا  دار المؤمنین یا دار الفاسقین ہونا یہ تمام عارضی اوصاف ہیں، دائمی اوصاف نہیں ہیں، جگہوں کے اوصاف بدلتے رہتے ہیں، جیسے انسان خود بھی کفر سے ایمان اور علم یا کبھی الٹ بھی ہوتا رہتا ہے۔

تاہم دائمی فضیلت جو ہر جگہ اور ہر وقت ساتھ رہتی ہے وہ ایمان  اور عمل صالح کی وجہ سے حاصل ہوتی ہے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ
ترجمہ:جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جو یہودی ہیں یا عیسائی  یا صابی (بے دین) ہیں، ان میں سے جو بھی اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائے اور عمل بھی اچھے کرے تو ایسے ہی لوگوں کو اپنے رب کے ہاں سے اجر ملے گا۔  [البقرة : 62]

ایسے ہی فرمایا:
وَقَالُوا لَنْ يَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَنْ كَانَ هُودًا أَوْ نَصَارَى تِلْكَ أَمَانِيُّهُمْ قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ [111]بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَهُ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ
ترجمہ:اہل کتاب کہتے ہیں کہ جنت میں صرف وہی شخص داخل ہوگا جو یہودی ہو یا  عیسائی  ہو ۔ یہ ان کی جھوٹی تمنائیں ہیں ۔ آپ ان سے کہیے : کہ اگر اس دعویٰ میں سچے ہو تو اس کے لیے کوئی دلیل پیش کرو۔ بات دراصل یہ ہے کہ جو شخص بھی اپنے آپ کو اللہ کا فرمانبردار بنا دے اور وہ نیکو کار بھی ہو تو اس کا اجر اس کے پروردگار کے ہاں اسے ضرور ملے گا ۔ [البقرة : 111-112]

اسی طرح فرمایا:
وَمَنْ أَحْسَنُ دِينًا مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ وَاتَّبَعَ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ
ترجمہ:اور اس شخص سے کس کا دین بہتر ہوسکتا ہے جس نے اللہ کے سامنے اپنا سرتسلیم خم کردیا ہو، وہ نیکو کار بھی ہو اور یکسو ہوجانے والے ابراہیم کے طریقہ کی پیروی کر رہا ہو، اس ابراہیم کی جسے اللہ نے اپنا مخلص دوست بنالیا تھا  [النساء : 125]

اس لئے کسی بھی انسان کیلئے یہ بالکل مناسب نہیں ہے کہ کسی جگہ کی فضلیت کے باعث وہاں کے لوگوں  کو بھی مطلق طور پر صاحب ِفضیلت سمجھے، بلکہ اسےچاہیے کہ ہر حقدار کواس کے مطابق حق  دے، لیکن جب بات  فضیلت کی ہو تواسکی بنیاد  ایمان، عمل صالح، اور نیک گفتارپرہی  ہونی چاہیے۔

اس بنا پر ہم  یہ کہہ سکتے ہیں کہ  مجموعی طور پر  بعض لوگوں کو بعض  پر فضیلت دینے سے یہ لازم نہیں آتا کہ ان میں سے ہر  فرد  دوسرے مجموعے کے ہر فرد سے افضل ہے، مثال کے طور پر: دوسری صدی کو تیسری صدی پر فوقیت حاصل ہے، عرب کو دیگر لوگوں پر فضیلت حاصل ہے، قریش کو دیگر قبائل پر فوقیت حاصل ہے، لہذا  اجمالی فضیلت اجمالی ہی ہوتی ہے، اس سے ہر فرد کا افضل ہونا لازمی نہیں ہے۔”انتہی

دوسرا مسئلہ:
مندرجہ بالا بیان کے بعد  اس حدیث کا مفہوم یہ سمجھنا غلط  ہے کہ اہل نجد  شروع سے لیکر آخر تک سب کے سب مذموم ہیں، بلکہ اس میں تو نجد کی مطلقا مذمت بھی نہیں ہے، بلکہ مذمت ایسی صورت میں ہے جب فتنےاور شر ہوگا، اور یہ ہر وقت اور ہر صدی میں  نہیں ہوسکتا، چنانچہ کبھی شر پایا جاسکتا ہے، اور کبھی علم و ہدایت ، اور فضل و خیر کا منبع بھی ہوسکتا ہے۔

شیخ عبد الرحمن بن حسن  رحمہ اللہ “مجموعۃ الرسائل والمسائل” (4/265) میں کہتے ہیں:
“بہر حال؛ حدیث میں مذکور مذمت کسی وقت ہوگی اور کسی وقت نہیں ہوگی، کچھ حالات میں مذمت  ہوگی اور کچھ حالات میں نہیں ہوگی، جیسے رہنے والے لوگ ہونگے وہی  معاملہ کیا جائے گا؛ اس لئے کہ علاقوں کی مذمت  ان کی ذات کی نسبت سے نہیں بلکہ افراد کی نسبت  سے ہےاگرچہ وہ فضیلت میں ایک دوسرے سے کم و بیش ضرور ہوتے ہیں ، اور ان کی حالت میں تبدیلی رونما  ہوتی رہتی ہے،  پس جیسے اللہ تعالی اپنی مخلوقات  کو  ایک حالت سے دوسری حالت میں بدلتا رہتا ہے، ایسے ہی  جگہوں کے حالات بھی تبدیل فرماتا ہے، چنانچہ کسی وقت میں کوئی جگہ نافرمانی کی جگہ ہو تو دوسرے  وقت میں اطاعت گزاری کی جگہ بھی ہوسکتی ہے، اور اس کے برعکس بھی ممکن ہے” انتہی

تیسرا مسئلہ:
حدیث کے الفاظ میں اہل نجد یا نجد کے باسیوں کی مذمت نہیں ہے، بلکہ حدیث میں یہ ہے کہ فتنے اور شر  جو مستقبل میں ہونگے وہ یہیں سے رونما ہونگے، لہذا اس حدیث میں مطلق طور پر نجد کے باسیوں کی مذمت نہیں ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ احادیث نبویہ میں  مدینہ منورہ میں بھی فتنوں کے وقوع پذیر ہونے کا ذکر ہے، مثلا: ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام سے کہا: (بےشک میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہارے گھروں میں فتنےایسے برسیں گے جیسے بارش  کے قطرے برستے ہیں۔) بخاری: (1878) اور مسلم :(2885)
اب اس حدیث سے اہل مدینہ کی مذمت سمجھنا بالکل غلط ہے۔

چنانچہ شیخ محمد بشیر سہسوانی(متوفی 1326 ہجری) اپنی کتاب: ” صیانۃ الإنسان عن وسوسۃ دحلان “(صفحہ: 500) میں کہتے ہیں:
“یہ احادیث ، اور اسی طرح کی دیگر احادیث  سے یہ پتا چلتا ہے کہ مدینہ نبویہ میں فتنے وقوع پذیر ہونگے، اب اگر کسی جگہ پر فتنوں کا ظہور   وہاں کے باسیوں کی مذمت ہوتی تو مدینہ میں رہنے والے تمام  لوگوں  کی مذمت لازم آتی، اور اس طرح کی بات کوئی نہیں کرسکتا کہ مکہ اور مدینہ کسی وقت میں شرک و کفر کے گڑھ تھے، اب شرک و کفر سے بڑھ کر کونسا فتنہ ہوسکتا ہے، بلکہ کوئی ملک اور بستی ایسی نہیں ہے جہاں کسی دور میں فتنے رونما نہ ہوئے ہوں، تو پھر کیا کوئی مسلمان  ساری دنیا کے مسلمانوں  کی مذمت کی جرأت کر سکتا ہے!؟ لہذا کسی معین شخص  کی مذمت کا دارو مدار اس کی جانب سے کفر و شرک اور بدعات  کا پرچار ہے”انتہی

اس سے معلوم ہوا کہ حدیث میں نجد کے علاقے میں رونما ہونے والے فتنوں اور آزمائشوں کا ذکر ہے، کہ یہ فتنے زلزلوں کی شکل میں ہونگے جو پورے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے، اور اکثر لوگ ان فتنوں کا شکار ہوجائیں گے، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ وہاں رہنے والے سب لوگ فتنہ پرور ہونگے، اور وہی ان فتنوں کا باعث بنیں گے، ا س حدیث سے جو شخص یہ مفہوم لیتا ہے وہ غلطی پر ہے، اور ظلم  و نا انصافی کرتا ہے۔

شیخ البانی رحمہ اللہ  “السلسلۃ الصحیحۃ” (5/305) میں لکھتے ہیں:
“لوگ اس بات سے نابلد ہیں کہ اگر کوئی شخص کسی برے علاقے سے تعلق رکھتا ہو تو اسکا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ شخص بھی برا ہی ہے، اسی طرح اس کے برعکس ہے[یعنی: کوئی اچھے علاقے سے ہو تو اسکا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ شخص بھی اچھا ہی ہوگا] چنانچہ آپ کو مکہ، مدینہ، اور شام وغیرہ میں فاسق و فاجر نظر آئیں گے، اور عراق میں کتنے عالم، اور نیک لوگ نظر آئیں گے، اور سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے ابو درداء رضی اللہ عنہ کی طرف سے ملک شام  کی طرف ہجرت کرنے کی دعوت پر بہت ہی ٹھوس جواب دیا تھا، انہوں نے کہا تھا: “حمد و صلاۃ کے بعد، مقدس زمین کسی کو مقدس نہیں بناتی، بلکہ انسان اپنے اعمال کی وجہ سے مقدس بنتا ہے”انتہی

چوتھا مسئلہ:
متقدم علمائے کرام نے اس حدیث کی شرح بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ: اس حدیث میں جس فتنے کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اشارہ کیا ہے وہ مسیلمہ کذاب کا فتنہ تھا، اس نے نبوت کا دعوی کیا تھا، اور دعوی نبوت  کے ساتھ شر لازمی آتا ہے، جیسا کہ دیگر نبوت کے جھوٹے دعویداروں کی وجہ سے فساد پھیلا۔

چنانچہ حافظ ابن حبان رحمہ اللہ  “الإحسان بترتيب صحيح ابن حبان” (15/24) کے مطابق عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں:
“پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرف دیکھا کہ آپ مشرق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرما رہے تھے: بیشک فتنہ یہاں ہوگا، بیشک فتنہ یہاں ہوگا، یہیں سے شیطان کا سینگ رونما ہوگا”
ابو حاتم [امام ابن حبان کی کنیت] رحمہ اللہ کہتے ہیں: مدینہ کا مشرقی حصہ بحرین ہے، اور مسیلمہ کذاب یہیں کا رہنے والا تھا، اور مسیلمہ کذاب کا ظہور اسلام میں سب سے پہلا فتنہ تھا” انتہی

اسی طرح کچھ اہل علم  نے اس حدیث سے مراد وہ فتنے لیے ہیں جو عراق میں رونما ہوئے، کیونکہ  عراق بھی حجاز میں رہنے والوں کیلئے مشرقی جانب بنتا ہے، اور عراق میں بھی نجد موجود ہے، کیونکہ ہر اونچا علاقہ دیگر علاقوں کیلئے نجد کہلاتا ہے، چنانچہ عراقی نجد کو بھی کچھ صحابہ کرام نے اس حدیث کا مصداق قرار دیا، جیسے کہ سالم بن عبد اللہ بن عمر  سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: “عراق والو!میں تم سے چھوٹے گناہ کا استفسار کرکے تمہیں کسی کبیرہ گناہ پر نہیں ابھارنا چاہتا! میں نے اپنے والد عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا وہ کہہ رہے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو فرماتے ہوئے سنا: (بیشک فتنہ یہاں سے آئے گا) اور آپ نے مشرق کی جانب اشارہ فرمایا، (جہاں سے شیطان کے دونوں سینگ ظاہر ہونگے، اور(دیکھو)آج  تم ایک دوسرے کو قتل کر رہے ہو!)”مسلم: 2905

چنانچہ اس سے معلوم ہوا کہ یہ حدیث ہر قسم کے نجد  کے متعلق ہے، یعنی حجاز سے اونچی ہر مشرقی جانب  مراد ہے، چنانچہ یہ حدیث نجد حجاز اور نجد عراق دونوں پر صادق آتی ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ “مجموع الفتاوى” (27/41-42) میں کہتے ہیں کہ:
“اہل مدینہ کا اس زمانے میں  یہ انداز گفتگو تھا کہ اہل نجد اور اہل عراق سب کو اہل مشرق کہا کرتے تھے”انتہی

اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ “فتح الباری” (13/47) میں لکھتے ہیں:
“اہل مشرق اس وقت کافر تھے، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ بتلایا کہ فتنہ اس طرف سے ہوگا، تو بالکل اسی طرح ہوا جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے بتلایا، چنانچہ اسلام میں سب سے پہلا فتنہ مشرقی جانب ہوا، جس کی وجہ سے مسلمانوں میں تفریق پیدا ہوئی، اور یہ بات شیطان کیلئے بڑی پسندیدہ ہے، اسی طرح بدعات بھی اسی جانب رونما ہوئیں۔
خطابی رحمہ اللہ کہتے ہیں: “نجد” مشرقی جانب ہے، اور مدینہ میں موجود  لوگوں کیلئے عراق کے مضافاتی علاقے نجد کہلاتے ہیں، اور یہی جانب اہل مدینہ کیلئے مشرقی سمت بنتی ہے، لغوی طور پر نجد زمین کے بلند حصے کو کہتے ہیں، نجد کا لفظ پست زمین کے مقابلے میں بولا جاتا ہے، چنانچہ تہامہ کا علاقہ پست زمین میں ہے، اور مکہ  تہامہ میں شامل ہے۔ ۔۔خطابی کی گفتگو مکمل ہوئی۔
نجد کی ایک تعریف پہلے گزر چکی ہے، اور دوسری داودی کے مطابق یہ ہے کہ: عراق کی جانب نجد سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ کوئی خاص علاقہ ہے، جبکہ حقیقت ایسے نہیں ہے، کیونکہ  ہر پست زمین کے مقابلے میں ابھری اور بلند جگہ نجد کہلاتی ہے، جبکہ  پست جگہ عربی میں “غور” کہلاتی ہے”انتہی، ابن حجر کی گفتگو مکمل ہوئی۔

علامۂِ عراق محمود شکری آلوسی اپنے  علاقے “عراق” کے بارے میں “غایۃ الأمانی” (2/148) میں کہتے ہیں:
“یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے، کیونکہ عراق کا علاقہ تمام آزمائشوں اور بلاؤں کا گہوارہ ہے، اور اسلامی تاریخ میں یہاں یکے بعد دیگرے کوئی نہ کوئی فتنہ سر اٹھاتا رہا ہے، چنانچہ “حروراء ” [یہ علاقہ خارجیوں کا علاقہ تھا۔ مترجم]کے لوگوں کی جانب سے اسلام مخالف میں جو کچھ ہوا کسی سے مخفی نہیں ہے، جہمیوں کا فتنہ، جن کے بارے میں بہت سے سلف صالحین نے خارج از اسلام ہونے کا فتوی دیا ہے، یہ فتنہ بھی عراق ہی میں رونما ہوا تھا، معتزلہ  کا حسن بصری کے ساتھ مشہور زمانہ  مکالمہ۔۔۔ بھی بصرہ [عراق] میں  ہوا تھا، ان کے بعد رافضی شیعہ کی جانب سے اہل بیت  کے بارے میں غلو، اور علی رضی اللہ عنہ سمیت دیگر ائمہ کے بارے میں نامناسب جملےاور  اکابر صحابہ کرام کے بارے میں نازیبہ الفاظ۔۔ یہ سب کچھ عراق سے ہی پھیلے “اختصار کیساتھ اقتباس مکمل ہوا۔

شیخ  “حکیم محمد اشرف سندھو” رحمہ اللہ کا ایک مستقل کتابچہ چھپا ہوا ہے جس میں ہماری بیان کردہ تمام باتیں موجود ہیں، جس کا عنوان ہے: ” أكمل البيان فی شرح حديث : نجد قرن الشيطان ”  شیخ عبد القادر بن حبیب اللہ سندھی رحمہ اللہ نے اس رسالے کے مقدمہ [صفحہ: 8]میں کہا ہے کہ:
“جاہلوں اور گمراہوں کی جانب سے آج  جس جگہ [یعنی: آجکل سعودی عرب کا نجدجس]کو متعین کر کے حدیث اس پر فٹ کی جاتی ہے، سلف صالحین اور بعد والے کسی اہل علم نے اس نجد کو مراد نہیں لیا، ان جاہلوں نے شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کی تجدیدی دعوت کے رونما ہونے کے بعد  اس علاقے کا نام لینا شروع کیا، کیونکہ ان لوگوں نے صحیح عقیدہ  کو سمجھا ہی نہیں یا سمجھتے تو ہیں لیکن پہلو تہی اختیار کیے ہوئے ہیں، اِن لوگوں نے صحیح طور پر اسلامی تاریخ سمجھی ہی نہیں ہے، اگر یہ صحیح تاریخ سمجھیں تو انہیں ان سنگین فتنوں  کے بارے میں علم ہو جو بڑے ہی عیاں طور پر حقیقی نجد میں رونما ہوئے تھے۔۔۔”انتہی

پانچواں مسئلہ:
بہت سے لوگ  “شیطان کے سینگ” سے معین شخص مراد لے لیتے ہیں، اور یہ غلط ہے، کیونکہ اس سے مراد صرف سورج کے طلوع ہونے کی جگہ، اور طلوعِ آفتاب کے وقت  اسے پیش آنے والی صورت حال ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے: (بیشک سورج شیطان کے دو سینگوں کے درمیان) طلوع ہوتا ہے۔
بخاری: (3273) اورمسلم : (612)
مذکورہ بالا بات کی دلیل صحیح بخاری کی روایت: (7092) میں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے: (فتنہ اس جانب ہوگا، فتنہ اس جانب ہوگا، جس جانب سے شیطان کا سینگ طلوع ہوتا ہے)راوی کو شک ہے کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے (سورج کا سینگ) فرمایا تھا۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  “فتح الباری” (13/46) میں کہتے ہیں:
“آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان: “سورج کا سینگ” اس کے بارے میں داودی کا کہنا ہے کہ: “سورج کے حقیقی سینگ ہیں، تاہم سینگ سے مراد شیطانی طاقت بھی مراد لئے جانے کا احتمال ہے، جس کے ذریعے شیطان لوگوں کو گمراہی کرنے کی کوشش کرتا ہے، یہ توجیہ زیادہ مناسب ہے” اس سے مراد کے بارے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ: “شیطان  اپنے سر کو طلوعِ آفتاب کے وقت سورج کیساتھ ملا لیتا ہے، تا کہ سورج کی عبادت  کرنے والے اسے بھی  سجدہ کریں” ایک قول یہ بھی ہے کہ: “ہوسکتا ہے کہ سورج کا مخصوص شیطان ہو ، جس کے سینگوں کے درمیان سے سورج طلوع ہوتا ہو” “انتہی

چھٹا  مسئلہ:
مذکورہ بالا تفصیلی بیان کے بعد شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ  اور انکی تجدیدی دعوت کی ناکام مذمت  کیلئے اس حدیث سے استدلال کی کوئی  گنجائش رہ جاتی ہے؟!!

حسد کرنے والے غالی صوفیوں اور رافضیوں کے پاس کونسی دلیل ہے جس کی بنا پر  مسلمانوں کے ایک مشہور عالم کی تعین کرتے ہوئے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی جانب سے اس حدیث میں ان کو مقصود نبوی قرار دیتے ؟ حالانکہ  وہ عہدِ قریب کے مشہور مصلحین میں شمار ہوتے ہیں، انہوں نے دعوتِ توحید کا بیڑا  علمی ،عملی ، اور دعوتی  انداز  سے اپنایا، بلکہ اہل علم نے انہیں اس صدی کا “مجدد” بھی قرار دیا؟!!

کیا احادیث نبویہ کی شرح و تفسیر خواہش نفس اور من مانی کرتے ہوئے ایسے کی جاتی ہے؟ !

اور کیا احادیث نبویہ کو مخصوص مذہب، گروہ بندی، اور تعصب کیلئے  اس طرح موڑا توڑا جاتا ہے؟!!

شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کی دعوت کے متعلق  آپ سوال نمبر: (36616) کا لازمی مطالعہ کریں۔

واللہ  اعلم.

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

answer

متعلقہ جوابات

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android