0 / 0
10,55606/10/2009

حاجت و ضرورت اور مصيبت سے چھٹكارا كے ليے سورۃ يس كى تلاوت كرنا

سوال: 87915

برائے مہربانى ہميں ايسے طريقہ كے متعلق معلومات فراہم كريں جو ہم ميں وراثتا چل رہا ہے اور ہم نے يہ بہت سارے مشائخ اور علماء سے سوريا ميں سيكھا ہے، ميں يقينى طور پر اس كے صحيح ہونے كا علم نہيں ركھتا، حاجات و ضروريات پورى كرانے اور ہمارے معاشرے ميں بہت سارى خواہشات و رغبات پورى كرانے كے اس طريقہ كا التزام كيا جاتا ہے اس كے اسلوب ميں ايك يہ بھى ہے كہ:
اكتاليس مرتبہ سورۃ يس يا تو انفرادى يا پھر اجتماعى طور پر تقسيم كر كے تلاوت كى جاتى ہے، يا پھر بعض آيات تكرار كے ساتھ معين تعداد ميں پڑھى جاتى ہے اور بعد ميں ايك معين دعا بھى كى جاتى ہے، يا پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر معين درود ( دس ہزار بار ) انفرادا يا اجتماعى آپس ميں تقسيم كر كے پڑھتے ہيں كہ ہر ايك كچھ حصہ پڑھتا ہے.
اكثر لوگوں سے ميں نے كہا كہ يہ صحيح نہيں يا پھر يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت شدہ سنت نہيں ہے تو وہ بہت شدت كے ساتھ اس كا دفاع كرتے ہوئے كہتے ہيں كہ اس كے بہت فوائد ہيں اور يہ تجربہ شدہ ہے.

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

آپ نے بيان كيا ہے كہ معين تعداد ميں سورۃ يس وغيرہ كى تلاوت يا پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر معين تعداد ميں انفرادى يا اجتماعى درود پڑھنا تا كہ مشكلات حل ہوں اور ضروريات پورى كى جا سكيں شرعيت ميں اس كى كوئى دليل نہيں ملتى، اور يہ بدعات ميں شامل ہوتى ہے.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

” جس كسى نے بھى ہمارے اس دين ميں كوئى نيا كام نكالا جو اس ميں سے نہيں تو وہ مردود ہے “

صحيح بخارى حديث نمبر ( 2697 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1718 ).

اہل علم كے ہاں يہ بات طے شدہ ہے كہ عبادت اصلا اور وصفا اور جگہ و وقت ميں مشروع ہونى چاہيے، اور جس عدد و كيفيت اور ہيئت كى شرعى دليل ثابت نہ ہو اس كا التزام كرنا بدعت شمار ہو گا.

شاطبى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

تو پھر بدعت كى تعريف يہ ہوئى كہ دين جو نيا طريقہ اختراع كر ليا جائے اور شريعت كا مقابلہ كرے، اس پر چلنے سے اللہ كى عبادت ميں مبالغہ كرنا مقصود ہو، كہ عبادت زيادہ كى جائے تو يہ بدعت كہلاتا ہے…

اور اس ميں يہ بھى شامل ہے:

كيفيت و ہئيت كى تعيين كر نے كا التزام كرنا، مثلا ايك ہى آواز ميں اجتماعى ذكر كرنا، اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى ولادت باسعادت كے دن كو جشن منانا اور اسے عيد ماننا اور اس طرح كے دوسرے امور.

اور اس ميں يہ بھى شامل ہے:

معين عبادات كا معين اوقات ميں التزام كرنا جن كى تعيين شريعت ميں نہ ملتى ہو، مثلا پندرہ شعبان كو نصف شعبان كا روزہ ركھنا، اور اس رات قيام كرنا ” انتہى

ديكھيں: الاعتصام ( 1 / 37 – 38 ).

اور يہ لوگوں كے طريقہ ميں شامل ہے اور وراثت ميں ملا ہے، يا پھر اس كے نتيجہ ميں بعض نتائج مرتب ہوتے ہيں اس كى مشروعيت پر دلالت نہيں كرتا، بلكہ اقوال و اعمال كا معيار و ميزان تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے اعمال و اقوال ہيں اس ليے جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے اقوال و اعمال كے موافق ہو اسے قبول كيا جائيگا، اور جو مخالف ہوں وہ مردود ہے چاہے اس كا قائل و عامل كوئى بھى ہو.

يہاں يہ كہا جائيگا كہ:

اگر يہ كوئى خير و بھلائى ہوتى تو ہم سے اس كام ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كے صحابہ كرام سبقت لے جاتے خاص كر جبكہ اس كا مقتضى پايا جاتا تھا، كيونكہ بہت سارے صحابہ كرام اذيت و ظلم كا شكار ہوئے، ليكن اس كے باوجود كسى سے ثابت نہيں كہ كسى ايك صحابى نے ايسا كيا ہو، اور نہ ہى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان كى اس طرف راہنمائى فرمائى.

اور خير و بھلائى تو صرف سلف رحمہ اللہ كى اتباع و پيروى ميں ہے، اور ہر قسم كا شر و برائى بعد ميں آنے والوں كى بدعات ميں ہے.

حاصل يہ ہوا كہ ان بدعات سے اجتناب كرنا اور دور رہنا متعين ہو جاتا ہے، اور مشروع اذكار و دعاؤں كا التزام كرنا جنہيں اللہ تعالى نے حاجات پورى كرنے اور رغبات كے حصول كا سبب بنايا ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

بے كس و لاچار كى پكار كو جب وہ پكارے تو كون قبول كر كے اس كى سختى كو دور كرتا ديتا ہے ؟ اور تمہيں زمين كا خليفہ بنتا ہے، كيا اللہ تعالى كے ساتھ كوئى اور معبود ہے ؟ تم بہت كم نصيحت و عبرت حاصل كرتے ہو النمل ( 62 ).

اور ايك مقام پر اللہ رب العزت كا فرمان اس طرح ہے:

جب ميرے بندے ميرے بارے ميں آپ سے دريافت كريں تو آپ كہہ ديں كہ ميں بہت ہى قريب ہوں ہر پكارنے والے كى پكار كو جب كبھى وہ مجھے پكارے قبول كرتا ہوں، اس ليے لوگوں كو بھى چاہيے كہ وہ ميرى بات مان ليا كريں اور مجھ پر ايمان ركھيں، يہى ان كى بھلائى كا باعث ہے البقرۃ ( 186 ).

اور ترمذى و ابو داود نے بريدہ اسلمى رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك شخص كو دعا كرتے ہوئے سنا وہ دعا ميں كہہ رہا تھا:

” اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِأَنِّي أَشْهَدُ أَنَّكَ أَنْتَ اللَّهُ لا إِلَهَ إِلا أَنْتَ الأَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِي لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ “

اے اللہ ميں تجھ سے سوال كرتا ہوں اور يقينا ميں گواہى ديتا ہوں كہ يقينا تو ہى معبود برحق ہے تيرے علاوہ كوئى اور معبود نہيں، تو احد و صمد اكيلا و يكتا اور بے نياز ہے جو نہ كسى سے جنا گيا ہے اور نہ ہى اس نے كسى كو جنا ہے اور اس كا كوئى ہمسر نہيں “

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

” اس ذات كى قسم جس كے ہاتھ ميں ميرى جان ہے اس نے اللہ كے اسم اعظم كا واسطہ دے كر دعا مانگى ہے جس كے ساتھ جب دعا كى جائے تو قبول ہوتى ہے “

سنن ترمذى حديث نمبر ( 3475 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 1493 ).

ابن ماجہ اور ترمذى نے انس رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ:

” نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم مسجد ميں داخل ہوئے تو ايك شخص نماز كے بعد دعا كرتے ہوئے يہ كہہ رہا تھا:

” اللَّهُمَّ لا إِلَهَ إِلا أَنْتَ الْمَنَّانُ بَدِيعُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ ذَا الْجَلالِ وَالإِكْرَامِ “

اے اللہ تيرے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں، آسمان و زمين كے پيدا كرنے والے، يا ذالجلال و الاكرام”

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

” كيا تمہيں معلوم ہے كہ اس نے كس كے ساتھ دعا كى ہے ؟

اس نے اللہ كے اسم اعظم كے ساتھ دعا كى ہے يہ وہ اسم اعظم ہے جس كے ساتھ دعا كى جائے تو دعا قبول ہوتى ہے اور جب سوال كيا جائے تو طلب پورى ہوتى ہے “

سنن ترمذى حديث نمبر ( 3544 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 3858 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح كہا ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android