0 / 0
6,89125/01/2010

والدين شادى ميں تاخير كرنا چاہتے ہيں

سوال: 46532

آپ ايسے شخص كو كيا نصيحت كرتے ہيں جو جنسى رغبات ركھتا ہو اور پرعزم شہوت كا مالك ہو، نہ تو وہ گھر سے نكلتا ہے اور نہ ہى كوئى ايسا عمل كرتا ہے جس سے اس كى يہ رغبات پورى ہوں، يقينا يہ معاملہ بہت مختلف ہے اور ايسے افكار ہيں جو ميرے دماغ سے نكلتے نہيں، ميں حقيقتا شادى كى رغبت ركھتا ہوں ليكن ميرے والدين ميرے مستقبل كے متعلق بہت اونچى اور بلند خيالات ركھتے ہيں، وہ چاہتے ہيں كہ پہلے ميں كوئى اونچے مقام والا شخص بن جاؤں اور بعد ميں اپنى زندگى بسر كرنے اور شادى كے متعلق سوچوں ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں نصيحت كرتے ہوئے فرمايا:

” اے نوجوانو كى جماعت! تم ميں سے جو كوئى بھى استطاعت ركھتا ہو وہ شادى كرے، كيونكہ يہ نظروں كو نيچا كر ديتى ہے، اور شرمگاہ كے ليے عفت كا باعث ہے، اور جو شادى كى استطاعت نہيں ركھتا وہ روزے ركھے يہ اس كے ڈھال ہے ” يعنى وہ شہوت ميں كمى كا باعث ہے اور اسے كاٹ ديتا ہے.

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5065 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 3384 ).

اس بنا پر اگر انسان كے ليے شادى كے اسباب ميسر ہوں تو اسے جتنى جلدى ہو سكے شادى كرنى چاہيے كيونكہ اس ميں بہت سارى مصلحتيں پائى جاتى ہيں جن پر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے متنبہ كيا ہے كہ اس سے نظريں نيچى ہو جاتى ہيں اور شرمگاہ كى حفاظت ہوتى ہے، اور امت ميں اضافہ و كثرت ہوتى ہے، اور بندہ فتنہ و فساد سے بچ جاتا ہے.

ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہ اگر ميرى عمر كے دس يوم بھى باقى رہ جائيں اور مجھے علم ہو جائے كہ ميں اس كے آخرى دن مر جاؤں گا اور ميرے اندر نكاح كرنے كى قدرت ہو تو ميں فتنہ ميں پڑنے كے ڈر سے نكاح ضرور كروں ”

اور امام احمد رحمہ اللہ كہتے ہيں:

” شادى كے بغير رہنا اسلام كا حكم نہيں ”

اگر آپ كو اپنے متعلق بےراہ روى اور حرام كام ميں پڑنے كا خدشہ ہے تو اس صورت ميں آپ كے ليے شادى كرنا واجب ہو جاتى ہے.

اس حالت ميں والد كو يہ نصيحت كى جائيگى كہ وہ اپنے بيٹے كى شادى كر دے اور اس كى عفت و عصمت اختيار كرنے اور فتنہ سے بچنے كى راہ ميں ركاوٹ مت بنے.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

” نكاح اور شادى كے معاملہ ميں لوگوں كى تين اقسام ہيں:

پہلى قسم:

وہ لوگ جنہيں كسى حرام اور ممنوع كام ميں پڑنے كا خدشہ ہو كہ اگر شادى نہ كى تو غلط كام كا ارتكاب كر بيٹھيں گے، عام فقھاء كے قول كے مطابق ان افراد كے ليے نكاح كرنا واجب ہے، كيونكہ ان پر اپنى عفت و عصمت محفوظ ركھنا اور حرام سے بچانا لازم ہے، اور اس كا طريقہ شادى ہے.

دوسرى قسم:

وہ افراد جن كے ليے شادى مستحب ہے، يہ وہ شخص ہے جسے شہوت تو ہے ليكن وہ حرام اور ممنوع كام ميں پڑنے سے محفوظ ہے اسے كوئى خطرہ نہيں؛ تو اس طرح كے شخص كے ليے بہتر اور اولى يہى ہے كہ وہ اپنے آپ كو عبادت و نوافل ميں مشغول ركھنے كى بجائے شادى كرے، اصحاب الرائے كا قول يہى ہے، اور صحابہ كرام رضى اللہ عنہم كا ظاہر قول اور فعل بھى يہى ہے.

ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہ اگر ميرى عمر كے دس يوم بھى باقى رہ جائيں اور مجھے علم ہو جائے كہ ميں اس كے آخرى دن مر جاؤں گا اور ميرے اندر نكاح كرنے كى قدرت ہو تو ميں فتنہ ميں پڑنے كے ڈر سے نكاح ضرور كروں.

اور سعيد بن جبير رحمہ اللہ كہتے ہيں: مجھے ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كہنے لگے: كيا آپ نے شادى كر لى ہے ؟

ميں نے عرض كيا: نہيں!!

تو وہ فرمانے لگے: شادى كر لو، كيونكہ اس امت ميں سب سے بہتر وہ ہے جس كى عورتيں زيادہ ہوں ”

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5069 ).

اور ابراہيم بن ميسرہ رحمہ اللہ كہتے ہيں: مجھے طاؤس كہنے لگے تم شادى ضرور كرو، وگرنہ ميں تمہيں وہى بات كہوں گا جو عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے ابوزوائد كو كہى تھى: تجھے شادى كرنے سے يا تو عجز نے منع كيا ہے يا پھر فجور نے !!.

تيسرى قسم:

جسے شہوت ہى نہ ہو؛ يا تو اس كے ليے شہوت پيدا ہى نہ كى گئى ہو مثلا اس كى آنكھيں نہ ہو بلكہ اندھا ہو، يا پھر اسے شہوت تو ہو ليكن بڑى عمر كا ہونے كے باعث يا بيمارى كے باعث شہوت جاتى رہے تو اس شخص كے ليے دو وجہيں ہيں:

پہلى وجہ:

اوپر ہم جو بيان كر چكے ہيں اس كى عموم كى بنا پر اس شخص كے ليے نكاح كرنا مستحب ہے.

دوسرى وجہ:

اس كے ليے نكاح نہ كرنا بہتر ہے كيونكہ نكاح كرنے كى مصلحت ہى حاصل نہيں ہو گى، اور وہ اپنى بيوى كو كسى دوسرے كے ساتھ شادى كر كے عفت و عصمت حاصل كرنے سے روكنے كا باعث بنےگا، اور اپنے ليے بيوى كو روك كر اسے نقصان دےگا، اور اپنے آپ كو ايسے واجبات اور حقوق كے سامنے ركھے جن كى ادائيگى اس كے ليے مشكل ہو گى اور انہيں ادا نہيں كر سكےگا، اور وہ علم اور عبادت كى بجائے ايسے كام ميں مشغول ہو جائيگا جس ميں كوئى فائدہ نہيں ”

ديكھيں: المغنى ابن قدامۃ ( 9 / 341 ).

آپ كو چاہيے كہ والدين كے ساتھ نرم رويہ اختيار كريں اور انہيں شادى كى ضرورت پر قائل كرنے كى كوشش كريں، اور انہيں يہ سمجھائيں كہ اس كے مستقبل كے متعلق جو وہ سوچ رہے ہيں شادى اس ميں ركاوٹ نہيں بنے گى، اور اس سلسلہ ميں آپ اپنے عزيز و اقارب ميں سے سمجھدار قسم كے افراد سے بھى معاونت لے سكتے ہيں كہ وہ والدين كو قائل كريں.

سائل كا يہ واضح كرنا كہ وہ فتنہ و فساد اور بے حيائى والى جگہوں پر جانے كے ليے گھر سے نہيں نكلتا اور اپنى شہوت كو حرام كام سے پورى كرنے كى كوشش نہيں كرنا چاہتا يہ سب عمل قابل تعريف ہيں، اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كو اس پر ثابت قدم ركھے اور نيك و صالح لڑكى سے شادى كرنے كى توفيق عطا فرمائے جس سے آپ اور آپ كى والدين كى آنكھيں ٹھنڈى ہوں، يقينا اللہ سبحانہ و تعالى سننے والا اور قبول كرنے والا ہے.

اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android