0 / 0

قيام رمضان كى فضيلت

سوال: 3452

رمضان المبارك ميں قيام الليل كى فضيلت كيا ہے ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

رمضان المبارك ميں قيام الليل كى فضيلت:

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم قيام رمضان كى رغبت دلايا كرتے، ليكن انہيں عزيمت كے ساتھ حكم نہ ديتے، پھر فرماتے:

" جس نے بھى رمضان المبارك ميں ايمان اور اجروثواب كى بنا پر قيام كيا اس كے پچھلے تمام گناہ معاف بخش ديے جاتے ہيں "

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فوت ہوئے تو معاملہ اسى طرح تھا ( يعنى تراويح باجماعت ادا نہيں كى جاتى تھيں ) پھر ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ كى خلافت اور عمر رضى اللہ تعالى عنہ كے ابتدائى دور ميں بھى معاملہ اسى طرح رہا "

اور عمرو بن مرۃ الجھنى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس قضاعۃ قبيلے كا ايك آدمى آيا اور عرض كرنے لگا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم آپ يہ بتائيں كہ اگر ميں يہ گواہى دوں كہ اللہ تعالى كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں، اور آپ اللہ تعالى كے رسول ہيں، اور پانچ نمازيں ادا كروں، اور ماہ رمضان كے روزے ركھوں، اور رمضان كا قيام كروں، اور زكاۃ ادا كروں تو ؟

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جو شخص بھى اس پر فوت ہوا تو وہ صديقين اور شھداء ميں سے ہے "

ليلۃ القدر اور اس كى تحديد:

2 – رمضان المبارك كى راتوں ميں افضل ترين رات ليلۃ القدر ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس نے بھى ليلۃ القدر كا ايمان اور اجروثواب كے ساتھ ( اور پھر اسے وہ مل بھى گئى ) ليلۃ القدر كا قيام كيا تو اس كے پچھلے سب گناہ بخش ديے جاتے ہيں "

3 – ليلۃ القدر كے متعلق راجح قول يہى ہے كہ وہ ستائيسويں رات ہے اور اكثر احاديث اسى پر دلالت كرتى ہيں، جن ميں زر بن حبيش كى حديث شامل ہے، وہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے ابى بن كعب رضى اللہ تعالى عنہ سے سنا ـ اور ان سے كہا گيا تھا: عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما يہ كہتے ہيں كہ: جس نے سارا سال قيام كيا تو اسے ليلۃ القدر مل گئى!

تو ابى بن كعب رضى اللہ تعالى كہنے لگے: اللہ ان پر رحم فرمائے انہوں نے چاہا ہے كہ لوگ بھروسہ ہى نہ كر بيٹھيں، اس ذات كى قسم جس كے علاوہ كوئى اور عبادت كے لائق نہيں، يقينا يہ رمضان المبارك ميں ہے ـ وہ استثناء كے متعلق حلف اٹھا رہے تھے ـ اور اللہ كى قسم ميں جانتا ہوں كہ وہ كونسى رات ہے ؟ يہ وہ رات ہے جس كا ہميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے قيام كرنے كا حكم ديا، يہ ستائيسويں كى رات ہے، اور اس كى علامت اور نشانى يہ ہے كہ اس دن صبح سورج سفيد ہوتا ہے، اس كى شعاع نہيں ہوتى "

اور انہوں نے يہ روايت نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم تك مرفوع بيان كى "

اسے مسلم وغيرہ نے بيان كيا ہے.

باجماعت قيام الليل كى مشروعيت:

4 – رمضان المبارك ميں باجماعت قيام كرنا مشروع اور جائز ہے، بلكہ يہ اكيلے ادا كرنے سے افضل ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے خود باجماعت ادا كيا، اور اس كى فضيلت بھى بيان فرمائى، جيسا كہ ابو ذر رضى اللہ تعالى عنہ كى درج ذيل حديث ميں ہے:

وہ بيان كرتے ہيں كہ ہم نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ رمضان المبارك كے روزے ركھے، تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں سارا ماہ كوئى قيام نہ كروايا، ليكن جب سات راتيں رہ گئيں تو ہميں رات كے آخرى حصہ ميں قيام كروايا حتى كہ رات كا تيسرا حصہ بيت گيا، اور جب چھ راتيں باقى رہ گئيں تو ہميں قيام نہ كروايا، اور جب پانچ تھيں تو ہميں قيام كروايا حتى كہ رات كا آدھا حصہ بيت گيا، تو ميں نے عرض كيا اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم! اگر آپ ہميں يہ پورى رات قيام كروا ديتے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جب آدمى امام كے ساتھ نماز كرے حتى كہ امام چلا جائے تو اس كے ليے پورى رات كا قيام لكھا جاتا ہے "

اور جب چار راتيں باقى رہيں تو اس رات ہميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے قيام نہ كروايا، اور جب تين رہ گئيں تو انہوں نے اپنى بيويوں اور گھر والوں اور لوگوں كو جمع كيا، اور اتنا قيام كروايا كہ ہميں خدشہ ہوا كہ ہمارى فلاح ہى نہ جائے، راوى كہتے ہيں: ميں نے عرض كيا: فلاح كيا ہے ؟ تو انہوں نے فرمايا: سحرى، پھر اس كے بعد مہينہ كى باقى راتيں ہميں قيان نہ كروايا "

يہ حديث صحيح ہے، اور اصحاب السنن نے اسے روايت كيا ہے.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا تسلسل كے ساتھ جماعت نہ كروانے كا سبب:

5 – نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مہينہ كى باقى راتيں قيام اس ليے نہ كروايا كہ كہيں رمضان المبارك ميں قيام الليل فرض ہى نہ ہو جائے تو وہ اس كى ادائيگى سے عاجز آ جائيں، جيسا كہ صحيح مسلم اور صحيح بخارى ميں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كى حديث سے ثابت ہے.

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى وفات سے يہ خدشہ زائل ہو چكا ہے، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے شريعت مكمل كر دى ہے، تو اس طرح يہ معلوم يعنى قيام رمضان كى جماعت ترك كرنے كا معلوم زائل ہو چكا ہے، اور وہى سابقہ حكم قيام اليل كى مشرعيت قائم ہے، اور اسى ليے عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ نے اسے زندہ كيا تھا، جيسا كہ بخارى وغيرہ ميں موجود ہے.

عورتوں كے ليے جماعت كى مشروعيت:

6 – قيام اليل ميں عورتوں كا حاضر ہونا مشروع ہے، جيسا كہ ابو ذر رضى اللہ تعالى عنہ كى سابقہ حديث ميں بيان ہوا ہے، بلكہ ان كے ليے خاص امام مقرر كرنا جائز ہے، جو كہ مردوں كے امام كے علاوہ ہو.

حديث ميں ثابت ہے كہ عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے جب لوگوں كو قيام اليل پر جمع كيا تو انہوں نے مردوں كى امامت كے ليے ابى بن كعب كو اور عورتوں كى امامت كے ليے سليمان بن ابى خيثمہ رضى اللہ تعالى عنہ كو مقرر كيا تھا.

عرفجہ الثقفى بيان كرتے ہيں كہ:

" على بن ابى طالب لوگوں كو ماہ رمضان كے قيام كا حكم ديا كرتے تھے، اور مردوں كے ليے عليحدہ اور عورتوں كے ليے عليحدہ امام مقرر كرتے وہ بيان كرتے ہيں: تو ميں عورتوں كا امام تھا "

ميں كہتا ہوں: يہ تو اس وقت ہے جب مسجد بہت بڑى اور وسيع ہو تا كہ ايك امام دوسرے پر تشويش نہ كرے.

قيام الليل ميں ركعات كى تعداد:

7 – اس كى گيارہ ركعات ہيں، اور ہم يہ اختيار كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اقتدا اور پيروى كرتے ہوئے ان گيارہ ركعات سے زائد ادا نہ كى جائيں، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فوت ہونے تك گيارہ ركعات سے زائد ادا نہيں كيں.

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے رمضان المبارك ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى نماز كے متعلق دريافت كيا گيا تو وہ فرمانے لگيں:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم رمضان اور غير رمضان ميں گيارہ ركعات سے زائد ادا نہيں كرتے تھے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم چار ركعت ادا فرماتے، اور آپ ان ركعات كےحسن اور لمبا ہونے كے بارہ ميں كچھ نہ پوچھيں، پھر آپ چار ركعت ادا فرماتے تو ان كے حسن اور لمبا ہونے كے متعلق كچھ نہ پوچھ، پھر آپ تين ركعت ادا فرماتے "

اسے بخارى و مسلم وغيرہ نے روايت كيا ہے.

8 – اور اس كے ليے ان ركعات ميں كمى كرنا جائزہے، حتى كہ اگر صرف ايك وتر پر ہى اقتصار كر لے تو بھى جائز ہے، اس كى دليل نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فعل اور قول ہے.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فعل يہ ہے كہ: عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے دريافت كيا گيا: رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كتنے وتر ادا كيے كرتے تھے ؟

تو عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كا بيان تھا: آپ وتر چار اور تين پڑھا كرتے، اور چھ اورتين، اور سات ركعت سے كم نہيں پڑھتے تھے، اور نہ ہى تيرہ ركعات سے زائد "

اسے ابو داود وغيرہ نے روايت كيا ہے.

اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان يہ ہے:

" وتر حق ہے، تو جو چاہے پانچ وتر ادا كرے، اور جو چاہے تين وتر ادا كرے، اور جو چاہے ايك وتر ادا كرے "

قيام اليل ميں قرآت:

9 – اور رمضان المبارك وغيرہ كے قيام الليل ميں قرآت كےمسئلہ ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كوئى حد نہيں لگائى كہ اس سے نہ تو زائد يا كم قرآت كى جا سكے، بلكہ قرآت لمبى اور چھوٹى ہونے كے اعتبار سے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى قرآت مختلف ہوا كرتى تھى، بعض اوقات تو آپ صلى اللہ عليہ وسلم سورۃ المزمل كى مقدار جتنى قرآت كرتے جو كہ بيس آيات ہيں، اور بعض اوقات پچاس آيات كى تلاوت كرتے، اور آپ فرمايا كرتے تھے:

" جو شخص ايك رات ميں سو آيات كے ساتھ قيام كرتا ہے اسے غافلين ميں سے نہيں لكھا جائيگا "

اور ايك دوسرى حديث ميں ہے: …. دو سو آيات كے ساتھ ت واسے قيام كرنے والے مخلصوں ميں لكھا جائيگا "

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك رات ميں سبع الطوال جو كہ سورۃ البقرۃ، آل عمران، اور النساء، اور المآئدۃ، اور الانعام، اور الاعراف اور التوبۃ كى قرآت كر كے قيام كيا، حالانكہ آپ بيمار بھى تھے "

اور حذيفہ بن يمان رضى اللہ تعالى عنہ كى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پيچھے نماز ادا كرنے والے قصہ ميں يہ بيان ہوا ہے كہ: رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك ہى ركعت ميں البقرۃ، پھر النساء، اور پھر آل عمران، پڑھى، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم بڑے آرام اور ٹھر ٹھر كر پڑھا كرتے تھے.

اور صحيح ترين سند سے ثابت ہے كہ جب عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے ابى بن كعب رضى اللہ تعالى عنہ كو لوگوں كا امام بنايا تو انہيں رمضان ميں لوگوں كو گيارہ ركعات پڑھانے كا حكم ديا، ابى بن كعب رضى اللہ تعالى عنہ سو سو آيات والى سورتيں پڑھا كرتے تھے، حتى كہ ان كے پيچھے نماز پڑھنے والے قيام لمبا ہونے كى بنا پر لاٹھيوں پر سہارا ليتے، اور وہ قيام سے تقريبا فجر كے قريب جا كر فارغ ہوتے.

اور يہ بھى صحيح ثابت ہے كہ عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے رمضان المبارك ميں قرآء حضرات كو بلايا، اور ان ميں سے سب سے تيز پڑھنے والے كو حكم ديا كہ وہ تيس آيات پڑھے، اور متوسط پڑھنے والے كو پچيس آيات پڑھنے كا حكم ديا، اور آہستہ پڑھنے والے كو بيس آيات پڑھنے كا كہا.

اس بنا پر اكيلا قيام كرنے والا شخص جتنا چاہے لمبا قيام كر سكتا ہے اور اسى طرح جو اس كے ساتھ موافق ہو وہ بھى لمبا قيام كر لے، اور قيام جتنا لمبا ہو گا اتنا ہى افضل اور بہتر ہے، ليكن وہ قيام لمبا كرنے ميں مبالغہ نہ كرے كہ سارى رات ہى بيدار رہے، بلكہ بعض اوقات ايسا كر سكتا ہے، تا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اتباع و پيروى ہو سكے جن كا فرمان يہ ہے:

" اور سب سے بہترين طريقہ نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم كا ہے "

ليكن جب بطور امام قيام كروائے تو اسے اتنا لمبا كرنا چاہيے جو مقتديوں كے ليے مشقت كا باعث نہ ہو، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جب تم ميں كوئى لوگوں كو قيام كروائے تو وہ نماز تخفيف كے ساتھ ادا كرے ( يعنى ہلكى ادا كرے ) كيونكہ ان ميں بچے بھى ہيں، اور بوڑھے بھى، اور ان ميں كمزور بھى، اور بيمار و مريض، اور ضرورتمند بھى، اور جب وہ اكيلا قيام كرے تو جتنى چاہے نماز لمبى كرے "

قيام كا وقت:

10 – قيام الليل كا وقت نماز عشاء كے بعد سے ليكر فجر تك ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" يقينا اللہ تعالى نےتمہارے ليے ايك نماز زائد كى ہے اور وہ وتر ہيں تو تم اسے نماز عشاء سے نماز فجر كے درميان ادا كيا كرو "

11 – اور پھر رات كے آخرى حصہ ميں نماز ادا كرنا افضل ہے، جس كے ليے اس ميں آسانى ہو تو وہ رات كے آخرى حصہ ميں ادا كرے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جسے خدشہ ہو كہ وہ رات كے آخر ميں بيدار نہيں ہو سكےگا تو وہ رات كے شروع ميں ہى وتر ادا كر لے، اور جو رات كے آخر ميں بيدار ہونے كى اميد ركھتا ہو وہ رات كے آخر ميں وتر ادا كرے، كيونكہ رات كے آخر ميں ادا كردہ نماز ميں فرشتے حاضر ہوتے ہيں، اور يہ افضل ہے "

12 – اور جب رات كى ابتدا ميں باجماعت قيام اور رات كے آخر ميں اكيلے قيام كرنے كا معاملہ ہو تو پھر جماعت كے ساتھ نماز ادا كرنا افضل ہے، كيونكہ اس سے اس كے ليے سارى رات كے قيام كا ثواب لكھا جائيگا.

عمر رضى اللہ تعالى عنہ كےدور ميں صحابہ كرام رضى اللہ عنہم كا عمل بھى اسى پر تھا، چنانچہ عبد الرحمن بن عبيد القارى كہتے ہيں:

" رمضان المبارك كى ايك رات ميں عمر رضى اللہ تعالى عنہ كے ساتھ مسجد كى طرف گيا تو لوگ عليحدہ عليحدہ نماز ادا كر رہے تھے، كہيں اكيلا شخص نماز ادا كر رہا تھا، تو اور كسى شخص كے پيچھے كچھ لوگ نماز ادا كر رہے تھے، تو عمر رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگے:

اللہ كى قسم ميرا خيال اور رائے ہے كہ اگر ميں انہيں ايك قارى كے پيچھے جمع كر دوں تو زيادہ بہتر ہے، پھر انہوں نے عزم كر ليا، اور سب لوگوں كو ابى بن كعب رضى اللہ تعالى عنہ كے پيچھے نماز ادا كرنے كا كہا.

عبد الرحمن كہتے ہيں: پھر ايك اور رات ميں عمر رضى اللہ تعالى عنہ كے ساتھ نكلا تو لوگ اپنے امام كے پيچھے نماز ادا كر رہے تھے، تو عمر رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگے:

يہ طريقہ بہت اچھا ہے، اور جو لوگ سو رہے ہيں وہ قيام كرنےوالوں سے افضل اور بہتر ہيں ـ ا نكى مراد رات كا آخرى حصہ تھى ـ اور ان دنوں لوگ رات كے شروع ميں قيام كرتے تھے "

اور زيد بن وھب كہتے ہيں:

" رمضان المبارك ميں ہميں عبد اللہ نماز پڑھاتے تو وہ رات كو فارغ ہوتے "

13 – اور جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تين وتر اكھٹے ادا كرنے سے منع كيا تو فرمايا:

" اور مغرب كى نماز سے مشابہت مت كرو "

تو پھر تي وتر اكھٹے ادا كرنے والے كو چاہيے كہ وہ اس مشابہت سے ضرور اجتناب كرے، اور يہ دو طرح سے ہو سكتا ہے:

پہلا طريقہ:

دو ادا كر كے سلام پھير لے اور پھر ايك وتر ادا كرے، اور يہ طريقہ زيادہ قوى اور افضل ہے.

دوسرا طريقہ:

دو ركعت كے بعد تشہد نہ بيٹھے.

واللہ تعالى اعلم.

تين وتروں ميں قرآت كرنا:

14 – تين وتروں كى قرآت ميں سنت يہ ہے كہ پہلى ركعت ميں سبح اسم ربك الاعلى اور دوسرى ركعت ميں قل يا ايھا الكافرون اور تيسرى ركعت ميں قل ھو اللہ احد اور بعض اوقات اس كے ساتھ قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس كا اضافہ كر ليا كرے.

اور يہ بھى نبى صلى اللہ عليہ وسلم سے صحيح ثابت ہے كہ آپ نے ايك بار وتر ميں سورۃ النساء كى ايك سو آيات كى تلاوت فرمائى.

دعاء قنوت:

15 – اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اس دعا كے ساتھ قنوت كيا كرتے تھے جو انہوں نے اپنے نواسے حسن بن على رضى اللہ تعالى عنہما كو سكھائى تھى، اور وہ يہ ہے:

" اللهم اهدني فيمن هديت وعافني فيمن عافيت وتولني فيمن توليت ، وبارك لي فيما أعطيت ، وقني شر ما قضيت ، فإنك تقضي ولا يقضى عليك ، وإنه لا يذل من واليت ، ولا يعز من عاديت ، تباركت ربنا وتعاليت ، لا منجا منك إلا إليك "

اے اللہ مجھے ان لوگوں ميں ہدايت دے جنہيں تو نے ہدايت دى، اور مجھے ان ميں عافيت دے جنہيں تو نے عافيت سےنوزا، اور ميرا ولى بن جن كا تو ولى بنا، اور جو تو نے مجھے عطا كيا ہے اس ميں بركت عطا فرما، اور مجھے اپنى برى تقدير سے بچا كر ركھ، كيونكہ تو ہى فيصلہ كرنے والا ہے، اور تيرے خلاف كوئى فيصلہ نہيں كر سكتا، يقينا جس كا تو دوست بن جائے وہ ذليل نہيں ہو سكتا اور جس كا تو دشمن بن جائے وہ كبھى عزت حاصل نہيں كر سكتا، ہمارے رب تو بابركت ہے اور بلند و بالا ہے، تيرے علاوہ كہيں اور ٹھكانہ نہيں "

اور بعض اوقات اس دعا كے بعد نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر دورد بھى پڑھے، ( اور مشروع اور صحيح دعاء ميں سے كوئى اور دعا كا اضافہ كرنے ميں كوئى حرج نہيں ).

16 – اور ركوع كے بعد قنوت كرنے ميں كوئى حرج نہيں، اور اس ميں كفار پر لعنت كرنے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر درود اور نصف رمضان كے بعد عام مسلمانوں كے ليے دعا كرنے ميں كوئى حرج نہيں، كيونكہ عمر رضى اللہ تعالى عنہ كے دور ميں اماموں سے ا سكا ثبوت ملتا ہے عبد الرحمن القارى كى مندرجہ بالا حديث كے آخر ميں آيا ہے كہ وہ يہ دعا كرتے تھے:

" اللهم قاتل الكفرة الذين يصدون عن سبيلك ، ويكذبون رسلك ، ولا يؤمنون بوعدك ، وخالف بين كلمتهم ، وألق في قلوبهم الرعب ، وألق عليهم رجزك وعذابك ، إله الحق "

اے اللہ ان كافروں كو تباہ و برباد كر دے جو تيرى راہ سے روكتے ہيں اور تيرے رسولوں كو جھٹلاتے ہيں، اور تيرے و عدے پر ايمان نہيں لاتے، اور ان كے درميان اختلاف پيدا كر دے، اور ان كے دلوں ميں رعب ڈال دے، اور ان پر اپنا عذاب اور سزا بھيج دے، اے الہ الحق "

پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر درود پڑھے، اور اس كے بعد حسب استطاعت عام مسلمانوں كى خير و بھلائى كے ليے دعا مانگے، اور پھر مومنوں كى بخشش كے ليے دعا كرے.

راوى كہتے ہيں:

اور جب كفار پر لعنت، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر درود و سلام اور مومنوں اور مومنات كے ليے استغفار اور دعائے خير سے فارغ ہوتے تو يہ كلمات كہتے:

" اللهم إياك نعبد ، ولك نصلي ونسجد ، وإليك نسعى ونحفد ، ونرجو رحمتك ربنا ، ونخاف عذابك الجد ، إن عذابك لمن عاديت ملحق "

اے اللہ ہم خاص تيرى ہى عبادت كرتے ہيں، اور تيرے ليے ہى نما زادا كرتے اور تجھے ہى سجدہ كرتے ہيں، اور تيرى طرف ہى كوشش كرتے ہيں اور جلدى كرتے ہيں، اور اے ہمارے رب ہم تيرى رحمت كے اميدوار ہيں اور ہم تيرے يقينى عذاب سے ڈرتے ہيں، بلا شبہ جو بھى تيرے ساتھ دشمنى ركھےگا تيرا عذاب اسے پہنچنے والا ہے "

پھر تكبير كہہ كر سجدہ ميں چلے جاتے.

وتر كے آخر ميں كيا كہا جائے:

17 – سنت يہ ہے كہ وتر كے آخر ميں ( سلام سے پہلے يا سلام پھير كر ) درج ذيل كلمات كہے:

" اللهم إني أعوذ برضاك من سخطك ، وبمعافاتك من عقوبتك ، وأعوذ بك منك ، لا أحصي ثناء عليك ، أنت كما اثنيت على نفسك "

اے اللہ ميں تيرى ناراضگى سے تيرى رضا كى پناہ ميں آتا ہے، اور تيرے عقاب و سزا سے تيرى عافيت كى طرف آتا ہوں، اور تجھ سے پناہ طلب كرتا ہوں، ميں تيرى ثناء كو شمار ہى نہيں كر سكتا، جس طرح تو نے اپنى ثناء خود كى ہے "

18 – اور جب وتر سے سلام پھيرے تو يہ كلمات تين بار كہے:

" سبحان الملك القدوس ، سبحان الملك القدوس ، سبحان الملك القدوس "

اور تيسرى بار اسے بلند آواز سے كہے.

وتروں كے بعد دو ركعات:

19 – اور اس كے ليے جائز ہے كہ وہ ( وتروں كے بعد اگر چاہے تو ) دو ركعات ادا كر لے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے يہ دو ركعات فعلا ثابت ہيں، بلكہ ….. رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" يقينا يہ سفر جھد و مشقت ہے، اور اگر تم ميں سے كوئى وتر ادا كر چكے تو وہ دو ركعات ادا كرے، اگر وہ بيدار ہو ا تو ٹھيك وگرنہ يہ دو ركعت اس كے ليے ہونگى ".

20 – سنت يہ ہے كہ وہ ان دو ركعات ميں اذا زلزلت الارض اور قل يا ايھاالكفافرون كى تلاوت كرے.

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android