0 / 0
11,47009/05/2010

نماز ميں نيت اور دعا كرنا

سوال: 20193

شخص كو دوران نماز كيا سوچنا چاہيے، اللہ تعالى كى تسبيح ؟
ميرے سوال كا مقصد يہ ہے كہ مجھے كچھ احاديث ياد ہيں جن ميں ہے كہ دوران نماز دعا كرنى واجب ہے، تو كيا يہ صحيح ہے؟
اور اگر صحيح ہے تو ہم يہ كيسے كر سكتے ہيں، صرف دل كے ساتھ يا كے نماز ميں كچھ ذكر كر كے ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

نماز صحيح ہونے كے ليے نيت شرط ہے، اور نيت ضرور ہونى چاہيے، شرع ميں اس كا معنى يہ ہے كہ:

اللہ تعالى كے قرب كے ليے عبادت كرنے كا عزم كرنا.

تو يہ تعريف دو معنوں پر مشتمل ہے:

پہلا:

عمل كى نيت: اور يہ عبادات كو دوسروں سے امتياز كرنا ہے، اور عبادات كو دوسرى عبادات سے ممتاز كرنا، لہذا وہ ان حركات و سكنات مشروع نماز كى نيت كرے، اور يہ نيت ركھے كہ يہ فرض ہے يا نفل.

دوسرا:

جس كے ليے كى جارہى ہے اس كى نيت: اور وہ يہ كہ اسے يہ نيت كرنى چاہيے كہ وہ اس عبادت سے اللہ تعالى كى رضامندى و خوشنودى چاہتا ہے، كسى اور كى نہيں.

يہ ياد ركھيں كہ اس نيت كا محل اور جگہ دل ہے، صرف بندے كا اپنے دل كے ساتھ اس عمل كا عزم اور ارادہ كرنا ہى نيت ہے، اس ليے شريعت نے عمل كے ارادہ كے وقت نيت كو زبان كے ساتھ ادا كرنا مشروع نہيں كيا، بلكہ نيت كى زبان كے ساتھ ادائيگى ان ايجاد كردہ بدعات ميں سے ہے جو كتاب اللہ اور سنت نبويہ ميں ثابت نہيں، اور نہ ہى صحابہ كرام رضوان اللہ عليہم اجمعين ميں سے كسى ايك صحابى سے منقول ہے.

ديكھيں: الشرح الممتع ( 2 / 283 ).

مزيد تفصيل معلوم كرنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 13337 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

اور بندے پر نماز ميں سوچنے كے متعلق يہ واجب ہے كہ: وہ اپنے رب كى عظمت كو اپنے ذہن ميں ركھے جس نے اسے اپنے سامنے كھڑے ہونے كا شرف بخشا ہے، لہذا وہ اس كے سامنے خشوع و خضوع اور تظيم كے ساتھ كھڑا ہو كر اس ميں بہترى پيدا كرے، اور نماز كى ہر جگہ پر جو كہنا اور پڑھنا مشروع كيا گيا ہے اس كے بارہ ميں سوچے.

اس ليے قيام ميں وہ قرآن مجيد كى جو تلاوت كر رہا ہے اس پر غور و فكر اور تدبر كرے، اور ركوع ميں جو دعائيں پڑھ رہا ہے اس كے معانى پر غور كرے اور اسى طرح سجدہ ميں پڑھى جانے والى دعاؤں پر غور كرے، اور باقى جگہوں ميں جو دعائيں پڑھى جاتى ہيں وہاں بھى اسى طرح، اس كے ساتھ ساتھ ہر جگہ ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے وارد اور ثابت شدہ دعاؤں اور اذكار كو پڑھنے كى حر ص ركھے.

اور جس چيز كى اسے ضرورت ہے اور وہ اس كا محتاج ہے اس معنى كى دعا اور دنيا و آخرت كى بھلائى كے ليے وہ سجدہ ميں دعا كرے كيونكہ يہ اس كى جگہ ہے، اور سجدہ ميں مسنون دعا پڑھنے كے بعد وہ اپنى ضرورت كى دعا اور اللہ تعالى سے سوال كر سكتا ہے.

كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" خبردار مجھے ركوع اور سجدہ ميں قرآن كى تلاوت كرنے سے منع كيا گيا ہے، ركوع ميں اللہ تعالى كى تعظيم بيان كرو، اور سجدہ ميں زيادہ سے زيادہ دعاء كرنے كى كوشش كرو، يہ زيادہ لائق ہے كہ تمہارى دعا قبول ہو جائے"

صحيح مسلم حديث نمبر ( 738 ).

اور آپ نے سوال ميں جو يہ اشارہ كيا ہے كہ بعض احاديث ميں وارد ہے كہ ہم پر دوران نماز ہر وقت دعاء كرنا واجب ہے، اس كے متعلق كسى بھى معتبر اہل علم نے ذكر نہيں كيا اور نہ ہى انہوں نے اس كى طرف اشارہ كيا ہے، ليكن ہو سكتا ہے آپ نے نماز كى لغوى تعريف سے يہ سمجھ ليا ہو جو بعض اہل علم نے كى ہے، كہ يہ دعاء ہے، آپ نے جو ذكر كيا ہے اس كا معنى يہ ہے.

اور ہو سكتا ہے آپ نے بعض اہل علم كى كلام سنى ہو كہ نماز سارى كى سارى دعاء ہے، تو ان كا مقصد دعاء كى دوسرى قسم ہے، كيونكہ بعض علماء نے دعاء كو دو قسموں ميں تقسيم كيا ہے:

1 – دعاء المسئلہ: يعنى اللہ تعالى سے حاجات اور ضررويات طلب كرنا اور مانگنا.

2 – دعاء العبادۃ: يعنى اللہ تعالى كى مشروع كردہ عبادات كے ساتھ اللہ تعالى كى عبادت كرنا، مثلا نماز، روزہ، زكاۃ.

اور اس قسم كا معنى يہ ہے كہ: يہ عبادات اللہ تعالى سے طلب اور مانگنے كا معنى اپنے ضمن ميں ليے ہوئے ہيں، گويا كہ يہ عبادت بجا لانے والا شخص زبان حال سے يہ كہہ رہا ہو اے ميرے رب ميرا يہ عمل قبول فرما، اور مجھے اس عبادت كا اجروثواب گناہوں كى بخشش اور جنت ميں داخل ہونے كى كاميابى اور آگ سے نجات كى شكل ميں عطا فرما، اور اس طرح كے معنى ميں، لہذا اس معنى ميں نماز سارى كى سارى دعار شمار ہو گى.

اس ليے سب مسلمانوں كو نصيحت ہے كہ وہ اپنى نماز ميں سنت نبويہ صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت پر عمل پيرا ہوں، تا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے اس فرمان پر عمل ہو سكے:

" نماز اس طرح ادا كرو جس طرح تم نے مجھے نماز ادا كرتے ہوئے ديكھا ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 631 ).

اور نماز ميں جو قرآن مجيد تلاوت كرتے ہيں اس پر غور و فكر اور تدبر كريں، اور جو دعائيں اور اذكار نماز ميں كيے جاتے ہيں ان كے معانى كو سمجھيں تا كہ نماز كا عظيم مقصد حاصل ہو سكے، جو اللہ تعالى نے مندرجہ ذيل فرمان ميں بيان فرمايا ہے:

اور نماز قائم كرو، كيونكہ نماز برائى اور بے حيائى و فحاشى كے كاموں سے روكتى ہے العنكبوت ( 45 ).

آپ نبى صلى اللہ عليہ وسلم كى نماز كا مختصر طريقہ سوال نمبر ( 13340 ) كے جواب ميں پڑھ سكتے ہيں.

اللہ تعالى سے دعاء ہے كہ وہ سب كو توفيق اور ہدايت نصيب فرمائے.. آمين يا رب العالمين.

واللہ اعلم.

ماخذ

الشیخ محمد صالح المنجد

answer

متعلقہ جوابات

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android