0 / 0
7,05718/10/2022

خلع اور طلاق میں فرق

سوال: 175765

میں نے اپنے خاوند کو حق مہر واپس کر دیا ہے اور اس سے خلع مانگا ہے، تو اس شخص نے حق مہر وصول کر کے مجھے شکریہ کہا، اور کہنے لگا کہ: اللہ آپ کو جزائے خیر دے، اب آپ آزاد ہیں، آپ کہیں بھی جا سکتی ہیں، تو میں مکان سے چلی گئی اور اپنی بہن کے ساتھ رہنے لگی، وہاں میں تقریباً 2 ماہ رہی اور پھر بیمار ہونے کی وجہ سے صاحب فراش ہو گئی، تو پڑوسیوں نے اللہ انہیں جزائے خیر دے، انہوں نے میرا اور میرے بچوں کا بہت خیال کیا۔ اسی دوران میں امید سے تھی اور زچگی کا وقت بھی قریب ہی تھا تو مجھے اس شخص کی کال آئی اور کہنے لگا کہ وہ میرا اور اپنے بچے کا حال دریافت کرنا چاہتا ہے، پھر بعد میں اس نے مجھے یہ بھی کہا کہ: ہم اب بھی نکاح کے بندھن میں ہیں؛ کیونکہ خلع طلاق نہیں ہوتا۔ ہم نے امام مسجد سے بھی بات کی تو امام مسجد نے کہا کہ: آپ طلاق یافتہ ہیں، تو کیا یہ صحیح ہے؟ اور کیا آنے والے بچے کا عقیقہ کرنے کے لیے ہمارے لیے نئے سرے سے نکاح کرنا لازمی ہے؟ یا پھر ہم الگ الگ رہتے ہوئے بھی عقیقہ کر سکتے ہیں؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

خلع طلاق نہیں ہوتا، یہ فسخ نکاح ہے، نیز خلع کے بعد دوبارہ رجوع کے لیے نیا نکاح کرنا لازم ہے۔

فسخ نکاح اور طلاق کے درمیان مزید فرق یہ ہے کہ: فسخ نکاح حق طلاق میں شمار نہیں ہوتا، چنانچہ اگر آپ اپنے خاوند کے پاس دوبارہ چلی جاتی ہیں تو پھر بھی ان کے پاس طلاق کے تین حق باقی ہیں۔

چنانچہ اگر آپ کا خاوند کبھی آپ کو طلاق دے بھی دے، اور آپ کی عدت ختم ہو جائے اور خاوند نیا نکاح کر کے آپ کو اپنے عقد میں لے لے تو پھر اس کے پاس صرف دو طلاق کا حق ہو گا۔

ہر وہ لفظ جس میں بیوی کی طرف سے معاوضہ دے کر جدائی ہو تو وہ خلع شمار ہوتا ہے۔

اور اگر خاوند طلاق خلع کے ساتھ دیتا ہے، مثلاً: وہ کہتا ہے کہ میں تمہیں اس شرط پر طلاق دیتا ہوں کہ تم مجھے میرا حق مہر لوٹا دو، تو یہ راجح موقف کے مطابق فسخ نکاح ہو گا، یعنی خلع اور فسخ نکاح ہی شمار ہو گا چاہے خاوند اس کے ساتھ طلاق کا لفظ ہی کیوں نہ استعمال کرے۔

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (126444 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔

دوم:

آپ دونوں بچے کی پیدائش پر خوشی منا سکتے ہیں اور جدا ، جدا رہتے ہوئے بھی عقیقہ کر سکتے ہیں، تاہم اس خوشی کو منانے کے لیے دوبارہ نکاح کرنا واجب نہیں ہے، لیکن واضح رہے کہ آپ کے اس بچے کا والد تمام احکامات میں آپ کے لیے ایک اجنبی شخص ہے۔

ہم آپ کو آپ کے سابقہ خاوند کی طرف رجوع کرنے سے قبل مشورہ دیں گے کہ استخارہ کریں اور اچھی طرح غور و خوض کر لیں ؛ چنانچہ اگر آپ رجوع کرنے کو مناسب سمجھیں تو تجدید نکاح کے لیے یہ بہت ہی مناسب وقت ہے۔

واللہ اعلم

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

answer

متعلقہ جوابات

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android