كچھ ويب سائٹس پر ” رمضان المبارك ميں تيس دنوں كى تيس دعاؤں ” كے نام سے ايك پمفلٹ شائع كيا گيا ہے جس ميں پہلى دن كى دعا:
” اے اللہ ميرے روزے كو روزے داروں كے روزوں ميں، اور ميرى قيام كو قيام كرنے والوں كے قيام ميں سے بنا، اور اس ميں مجھے غافلوں كى نيند سے متنبہ ركھنا، اور اے الہ العالمين اس ميں ميرا جرم معاف كر دے، اور اسے مجرموں كو معاف كرنے والے مجھے معاف كر دے ”
دوسرى دن كى دعا:
اے اللہ اس دن ميں مجھے اپنى رضامندى كا قرب نصيب فرما، اور اپنى ناراضگى اور عذاب سے محفوظ ركھ، اور اے ارحم الراحمين اپنى آيات كى تلاوت كرنے كى توفيق نصيب فرما”
تيسرى دن كى دعا:
اے اللہ اس دن مجھے ذہن اور تنبيہ نصيب فرما، اور بے وقوفى و سفاہت سے دور ركھ، اور اے جود و سخا كے مالك اپنى جانب سے نازل كردہ خير و بھلائى ميں ميرا حصہ بنا ”
تيسويں روز كى دعا:
اے اللہ ميرے روزوں ميں شكر پيدا فرما، اور جس طرح تو اور تيرا رسول راضى ہے محمد صلى اللہ عليہ وسلم كے صدقے اسے اس طرح اسے قبول فرما، جس كے اصول و فروع سب پورے ہوں، اے پاكبازوں كے الہ اسے قبول فرما، سب تعريفات اللہ رب العالمين كے ليے ہيں ”
برائے مہربانى يہ بتائيں كہ اس پمفلٹ كو نشر كر كے تقسيم كرنے كا حكم كيا ہے، اور اس طرح كى دعاء رمضان المبارك ميں كرنا جائز ہے يا نہيں ؟
رمضان ميں تيس دنوں كى تيس دعائيں كے پملفٹ كا تعاقب
سوال: 139822
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
دعاء ہى اصل عبادت ہے، جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا بھى فرمان ہے جسے امام ترمذى وغيرہ نے صحيح سند كے ساتھ روايت كيا ہے، اور پھر عبادات اصل ميں توقيفى ہوتى ہيں، ان ميں كسى بھى قسم كى تبديلى كرنا اور وقت كے ساتھ يا كسى مناسبت وغيرہ كے ساتھ مقيد كرنا جائز نہيں، عبادت جيسے مشروع ہوگى اسى طرح سرانجام دى جائيگى.
لہذا كسى شخص كے ليے بھى جائز نہيں كہ وہ لوگوں كے ليے مخصوص اوقات كے ساتھ مقرر كردہ دعائيں مشروع قرار دے.
مزيد آپ سوال نمبر (21902 ) اور (27237 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.
رمضان المبارك ميں دعا كرنا ايك مرغوب امر ہے، ليكن اس ترغيب كى بنا پر كسى شخص كے ليے جائز نہيں كہ وہ لوگوں كے ليے اپنى جانب سے ہى دعائيں ايجاد كر كے انہيں مخصوص اوقات كے ساتھ متخص كرتا پھرے.
بلكہ مسلمان شخص كے ليے دنيا و آخرت كى بھلائى و خير كى كوئى بھى دعا كرنا جائز ہے، اس كے ليے كسى وقت كى ضرورت نہيں كسى بھى وقت اور كوئى بھى الفاظ كر سكتا ہے.
اس كى مثال وہ ہے جس سے علماء كرام نے اجتناب كرنے كا كہا مثلا حج و عمرہ ميں طواف اور سعى كے ہر چكر كى عليحدہ دعاء.
شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” اس اور دوسرے طواف ميں اور اسى طرح سعى ميں كوئى مخصوص دعا اور ذكر واجب نہيں، رہا يہ كہ بعض لوگوں نے جو طواف اور سعى كے ہر چكر كى مخصوص دعا بنا لى ہے اس كى كوئى دليل نہيں ملتى، بلكہ جو دعاء بھى ميسر ہو وہى كر لى جائے تو كافى ہے ”
ديكھيں: فتاوى الشيخ ابن باز ( 16 / 61 – 62 ).
اور شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” ہر چكر كى كوئى مخصوص دعاء نہيں ہے، بلكہ ہر چكر كى مخصوص دعا متعين كرنا بدعت ہے؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ايسا ثابت نہيں ہے، طواف ميں زيادہ سے زيادہ يہى ثابت ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم حجر اسود كا استلام كرتے وقت بسم اللہ كہتے، اور ركن يمانى اور حجر اسود كے مابين ربنا آتنا فى الدنيا حسنۃ و فى الآخرۃ حسنۃ و قنا عذاب النار پڑھا كرتے تھے.
ليكن باقى چكر ميں مطلقا ذكر كيا جا سكتا ہے، اور قرآن مجيد كى تلاوت كى جا سكتى ہے، اس كے ليے كوئى چكر مخصوص نہيں “
ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 22 / 336 ).
اور يہاں ايك اور معاملہ ہے كہ:
آخرى دن يعنى تيسويں دن كى دعاء ميں ايك برائى پائى جاتى ہے، اور يہ شريعت كے مخالف بھى كہ اللہ تعالى كو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور آل بيت كا واسطہ اور وسيلہ ديا جا رہا ہے.
دعاء ميں اس وسيلہ كا بدعت ہونا اور اس كے بارہ ميں اہل علم كى كلام سوال نمبر (125339 ) كے جواب ميں بيان كيا گيا ہے آپ اس كا مطالعہ كريں.
اس ليے مسلمان كو چاہيے كہ وہ اس طرح كى اشياء اور پمفلٹ ميں شريك مت ہو، بلكہ اسے حسب استطاعت دوسروں كو بھى اس سے اجتناب كرنے كى تلقين كرنى چاہيے.
اور مسلمان كو يہ بھى معلوم ہونا چاہيے كہ بدعت پر عمل كر كے اللہ سبحانہ و تعالى كا قرب حاصل كرنے ميں كوئى خير و بھلائى نہيں، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا تو فرمان يہ ہے كہ:
” ہر بدعت گمراہى و ضلالت ہے “
صحيح مسلم حديث نمبر ( 867 ).
آپ ان احاديث كا مطالعہ كريں جو دين ميں بدعات كى ايجاد كى ممانعت كرتى ہيں، اور بدعت سے اجتناب كرنے ميں علماء كرام كى كلام ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 118225 ) اور ( 864 ) كے جوابات كا مطالعہ كريں.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات