اگر گاہك پر جرمانہ عائد كر ديا جائے تو كيا يہ سود شمار ہو گا؟ اس ليے كہ بنك نے چيك كيش كرنے سے انكار كرديا ، مثلا اگر كوئى گاہك كسى معين ادارے كے ليے معين رقم كا چيك كاٹے، اور جب صاحب عمل چيك كيش كروانے جائے تو وہاں اس كے كھاتے ميں بيلنس ہى نہ ہو، اور اس كے بعد وہ گاہك سے جرمانہ وصول كرے كيونكہ اس كا چيك كيش نہيں ہوا تھا، تو كيا يہ اضافى رقم سود شمار ہو گى ؟
0 / 0
4,90703/07/2005
قرض كى ادائيگى ميں تاخير ہونے پر جرمانہ عائد كرنا جائز نہيں
سوال: 13709
جواب کا متن
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
جى ہاں آپ كے ليے صرف اتنا مال لينا ہى حلال ہے جو گاہك كے ذمہ تھا، اور تاخير كے سبب يا اس وجہ سے كہ رقم كى وصولى ميں آپ كو مشقت اٹھانا پڑى ہے اس پر اضافى رقم ڈالنا جائز نہيں، بلكہ آپ صرف اتنى رقم ہى وصول كريں جو اس نے چيك ميں لكھى تھى، ليكن اگر وہ آپ كو بنك جانے كے بدلے ميں بطور اجرت كچھ رقم دے تو اس ميں كوئى حرج نہيں.
ليكن تاخير كى حالت ميں زائد رقم كى شرط عائد كرنى جائز نہيں ہے .
ماخذ:
الشیخ عبداللہ بن جبرین