0 / 0
21,05223/04/2011

بيوى نے خاوند اور سسرال والوں پر سب و شتم كيا تو خاوند نے تين طلاقيں دے ديں

سوال: 103421

ميں تيونس كا شہرى ہوں ميرا ايك تيونسى لڑكى سے تعارف ہوا جس كے پاس فرانس كى شہريت تھى، يہ لڑكى اپنے لباس اور معاملات ميں يورپ كى نقالى كرتى چنانچہ ميں نے اسے نماز ادا كرنے اور پردہ كرنے كى دعوت دى تو اس نے اسے قبول كر ليا اور اسے تسليم كرتے ہوئے پردہ كرنے لگى.

لہذا ميں نے اس سے منگنى كر لى ليكن ايك ماہ بعد ہى وہ پھر اسى طرح ہو گئى اور مجھے كہنے لگى شادى كے بعد كروں گى، اس ليے ميں اس سے شادى پر مجبور ہوگيا ميرا خيال يہ تھا كہ وہ غلط اور برى سوسائٹى اور غلط قسم كى سہيليوں اور دوست و احباب سے دور ہو دين پر عمل كرنے لگےگى، ميں اسے ہر وقت دين پر عمل كرنے كى نصيحت كرتا رہتا.

ليكن اس كى والدہ ہميشہ اس كى سوچ پر مسلط رہى اور اسے كہتى ” تم ابھى چھوٹى ہو، اپنى زندگى گزارو، ابھى پردہ كرنے اور نماز ادا كرنے كا وقت نہيں ” وہ ہميشہ ميرى توہين كرتى اور مجھ پر سب و شتم كرتى ليكن ميں صبر سے كام ليتا رہا.

اس وقت ميرى بيوى فرانس ميں ہے اور وہ آٹھ ماہ كى حاملہ بھى ہے، ليكن ميں تيونس ميں ويزہ كا انتظار كر رہا ہوں تا كہ بيوى كے پاس جا سكوں، كيونكہ ميں نے اپنى ملازمت چھوڑ دى ہے اور استعفى دے ديا ہے كيونكہ مجھے دينى غيرت ہے، اور ميں اب بھى اسے نصيحت كرتا ہوں كہ وہ ان يورپى عادات سے باز آ جائے جس كى كوئى دليل اور اصل نہيں اور نہ ہى دين ہے بلكہ وہ اسے چھوڑ كر اچھائى اور نيكى كى طرف واپس پلٹ آئے ليكن وہ انہيں عادات پر مصر ہے.

چنانچہ ميں بہت تنگ ہوگيا اور ٹيلى فون پر ہمارا جھگڑا بھى ہوا تو وہ مجھے اور ميرى والدہ كو گالياں دينے لگى اور سارے خاندان كو برا كہنے لگى، اور ايسى كلام كى جو ميں نے سارى زندگى اپنى زبان سے نہيں نكالى تھى، چنانچہ ميں نے غصہ كى حالت ميں فرانسيسى زبان ميں اسے كہا:

” tu es dévorcée ، tu es dévorcée ، es dévorcée tu ” اس سے ميرا اسے تين طلاق دينے كا مقصد تھا، اب ميں اپنے اس معاملہ ميں پريشان ہوں، برائے مہربانى ميں يہ بتائيں كہ مجھے كيا كرنا چاہيے ؟

يہ علم ميں ركھيں كہ بچہ بھى پيدا ہونے والا ہے، ميں اعتراف كرتا ہوں كہ ميں نے جلد بازى ميں غلطى كر لي ہے، اللہ نے جو چاہا وہى ہوا، اب ميں آپ كے جواب كا انتظار كر رہا ہوں.

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اول:

آدمى كا طلاق كے الفاظ ادا كرنے ميں جلدبازى سے كام لينا بہت بڑى غلطى ہے، كيونكہ بعض اوقات اس سے نہ چاہتے ہوئے بھى خاندان كا شيرازہ بكھر جاتا ہے، اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى نے طلاق اس ليے مشروع نہيں كى كہ اس سے غصہ ٹھنڈا كيا جائے، بلكہ طلاق تو مشروع اس ليے كى ہے تا كہ آدمى اسے اس صورت اور حالت ميں استعمال كرے جب وہ نكاح كو ختم كرنا چاہتا ہو، اور يہ بھى اس صورت ميں جب نكاح ختم كرنے كا كوئى سبب پايا جائے.

اس بنا پر آپ كو اپنى زبان كى حفاظت كرتے ہوئے غصہ يا پھر خوشى ہر حالت ميں طلاق كے الفاظ ادا كرنے سے محفوظ ركھنا چاہيے.

دوم:

غصہ كى حالت ميں طلاق دينے والے كى تين حالتيں ہيں:

پہلى حالت:

غصہ اتنا كم ہو كہ وہ اس كے ارادہ اور اختيار پر اثرانداز نہ ہو، تو اس حالت ميں دى گئى طلاق صحيح ہے اور يہ واقع ہو جائيگى.

دوسرى حالت:

اگر غصہ اتنا شديد ہو كہ اسے علم ہى نہ رہے كہ وہ زبان سے كيا نكال رہا ہے، اور اسے شعور تك نہ ہو تو اس حالت ميں دى گئى طلاق واقع نہيں ہوگى، كيونكہ يہ مجنون اور پاگل كى جگہ شمار ہوگا جس كے اقوال كا مؤاخذہ نہيں ہے.

ان دونوں حالتوں كے حكم ميں علماء كرام كا كوئى اختلاف نہيں، ليكن تيسرى حالت باقى ہے وہ كہ:

تيسرى حالت:

اتنا شديد غصہ جو آدمى كے ارادہ پر اثرانداز ہو جائے اور وہ ايسى كلام كرنے لگے جس پر اس كا كنٹرول نہ ہو گويا كہ اس سے يہ بات نكلوائى جا رہى ہے، اور اپنے اقوال اور افعال پر اسے كنٹرول نہ رہے.

تو غصہ كى يہ قسم ايسى ہے جس كے حكم ميں علماء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے، ليكن راجح يہى ہے ـ جيسا كہ شيخ ابن باز رحمہ اللہ كا كہنا ہے ـ يہ طلاق بھى واقع نہيں ہوتى، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

” شديد غصہ اور جبر كى حالت ميں نہ تو طلاق ہے اور نہ ہى آزادى ”

سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2046 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے الارواء الغليل ( 2047 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اغلاق كا معنى علماء نے يہ كيا ہے كہ: اكراہ يعنى جبر اور شديد غصہ.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ اور ان كے شاگرد ابن قيم رحمہ اللہ نے اس قول كو ہى اختيار كيا ہے، اور اس سلسلہ ايك مشہور كتابچہ بھى ” اغاثۃ اللھفان فى حكم طلاق الغضبان ” كے نام سے تاليف كيا ہے.

مزيد آپ سوال نمبر (45174 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

اس بنا پر اگر آپ كا غصہ اس حد تك پہنچ چكا تھا كہ اس نے آپ كو يہ الفاظ ادا كرنے پر مجبور كر ديا، كہ اگر يہ غصہ نہ ہوتا تو آپ طلاق نہ ديتے، تو اس صورت ميں طلاق واقع نہيں ہو گى.

سوم:

اگر آدمى اپنى بيوى كو كہے: تجھے طلاق تجھے طلاق تجھے طلاق، يا پھر وہ كہے” تجھے تين طلاقيں ” تو اس سے ايك طلاق ہى واقع ہوگى، شيخ الاسلام ابن تيميہ اور ان كے شاگرد ابن قيم رحمہم اللہ نے اسے ہى اختيار كيا ہے، اور معاصر علماء كرام ميں سے شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ نے اسے راجح قرار ديا ہے ”

ديكھيں: الشرح الممتع ( 13 / 42 ).

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

answer

متعلقہ جوابات

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android